کوئی بھی ادارہ اسٹیٹ آف آرٹ نہ بن سکا

September 30, 2018

پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے بڑا زوردار بیان داغا ہے کہ پنجاب کے تمام ٹیچنگ اسپتالوں میں اسٹیٹ آف دی آرٹ گائنی وارڈ بنیں گے۔ پسماندہ علاقوں میں گائنی وارڈز کو اپ گریڈ کیا جائے گا۔ خصوصاً ڈی جی خان سمیت تمام ٹیچنگ اسپتالوں کو اسٹیٹ آف دی آرٹ گائنی اور آئی سی یو بنائے جائینگے، کاغذی کارروائی نہیں چلے گی۔ پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ اور تاحیات خادم پنجاب میاں محمد شہباز شریف کو اسٹیٹ آف دی آرٹ کا لفظ بہت پسند تھا چنانچہ وہ اپنے دس سالہ دور اقتدار میں جس کسی ادارے میں بھی گئے وہاں جا کے ہمیشہ یہ اعلان کیا کہ اس ادارے اور اسپتال کو اسٹیٹ آف دی آرٹ بنا دونگا مگر کوئی اسپتال اور ادارہ اسٹیٹ آف دی آرٹ نہ بن سکا بلکہ ہر ادارہ اور اسپتال سہولیات کی وجہ سے آف ہی آف رہا۔ سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف نے چھ سات مرتبہ پی کے ایل آئی کا دورہ کیا اور ہر دورے میں یہ دعویٰ کیا کہ یہ ادارے اسٹیٹ آف دی آرٹ ہے پھر اس اسٹیٹ آف دی آرٹ میں جو گھپلے ہوئے انہیں سن کر آج ہر کوئی حیران ہے۔ البتہ گھپلوں میں وہ ادارہ واقعی اسٹیٹ آف دی آرٹ بن چکا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے پی کے ایل آئی کے سربراہ کا نام ای سی ایل آئی میں ڈال دیا۔ سپریم کورٹ نے پی کے ایل آئی کے متعلق بڑا فیصلہ سنا دیا۔ پاکستان کڈنی لیور ٹرانسپلانٹ انسٹیٹیوٹ سے متعلق لئے گئے ازخود کیس کا عبوری تحریری فیصلہ چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے جاری کیا۔ عدالت نے پی کے ایل آئی کے سربراہ ڈاکٹر سید اختر اور بورڈ کو معطل کر دیا۔ عدالت نے ڈاکٹر سید اختر کو عدالتی اجازت کے بغیر بیرون ملک جانے سے روک دیا۔

عدالت نے جسٹس ریٹائرڈ اقبال حمید الرحمٰن کی سربراہی میں نئی ایڈہاک مینجمنٹ کمیٹی تشکیل دیدی۔ عدالت نے کمیٹی میں پروفیسر جواد ساجد، لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ شاہد نیاز، سیف اللہ چٹھہ اور خسرو پرویز خان کو ممبر کی حیثیت سے شامل کر دیا۔ عدالت نے جسٹس ریٹائرڈ اقبال حمیدالرحمٰن پر مشتمل ایڈہاک کمیٹی کو فوری چارج سنبھالنے کی ہدایت کر دی۔ عدالت نے ڈاکٹر سعید اختر اور معطل شدہ پی کے ایل آئی بورڈ کو فوری طور پر اسپتال کی دستاویزات نئی کمیٹی کے سپرد کرنے کی ہدایت کردی۔ عدالت نے معطل بورڈ کو اسپتال کی اراضی، اثاثہ جات، اکائونٹس اور متعلقہ کتابیں نئی کمیٹی کے سپرد کرنے کی ہدایت کردی۔ پی کے ایل آئی پر سابق حکومت نے تیس ارب روپے خرچ کر دیئے۔ کتنی حیران کن بات ہے حکومت ایک ایکٹ کے تحت سرکاری ادارہ بناتی ہے لیکن کتنی عجیب بات ہے اس ادارے کا آڈٹ نہیں ہوسکتا۔ کسی سرکاری اسپتال کے ڈاکٹر کو وہاں ملازمت نہیں مل سکتی اوراس سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ مختلف کمپنیوں کو ایڈوانس رقم ادا کی گئی اور دوسری طرف ایک تعمیراتی کمپنی کا مالک اسپتال کے بورڈ کا بھی ممبر تھا۔ پی کے ایل آئی کے بارے میں فارنزک رپورٹ کوئی 43صفحات پر اور 20ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔ آج اس کمپنی کو سڑکیں بنانے کے ٹھیکے دیئے جا رہے ہیں۔ پی کے ایل آئی کے ایکٹ 2015ء کی ذیلی سیکشن 5 کی شق 2 کے تحت حکومت کو بورڈ کے معاملات میں دخل اندازی کا حق نہیں۔ اگر مسلم لیگ کی حکومت 22، 23ارب روپیہ پنجاب کے ان ٹیچنگ اسپتالوں میں جہاں پر گردے اور جگر کے وارڈ ہیں وہاں لگا دیتی تو وہ تمام یونٹس اپ گریڈ ہو جاتے اور مریضوں کو بھی بہتر سہولیات مل جاتیں۔ اربوں روپے لگا کر چھ سات کڈنی ٹرانسپلانٹ اور ایک جگر کی پیوند کاری ہوئی، یہ کیا کارکردگی ہوئی ، یہ ہے اسٹیٹ آف دی آرٹ ادارہ؟ غریب ملک میں جہاں چندہ لے کر ڈیم بنائے جا رہے ہیں اس ملک میں ڈاکٹروں کو لاکھوں روپیہ تنخواہیں دی جا رہی ہیں۔ اس ادارے کے تمام ڈاکٹر سرکاری گریڈ اور اسکیل سے باہر ہیں۔ یہ کیسا دہرا معیار ہے کہ ایک سرکاری ادارے میں لوگ گریڈز کے مطابق تنخواہیں لیں اور دوسرےادارے میں تنخواہیں سرکاری گریڈ سے علیحدہ ہوں، کیا اس سے دیگر سرکاری اسپتالوں میں کام کرنیوالو ں میں بددلی پیدا نہیں ہوگی۔ چھوٹے میاں صاحب نے اس ادارے میں کام کرنے والے ہر فرد کی بے جا تعریف کی، اس کو آسمان پر چڑھایا۔ اب جب عدالت عظمیٰ نے پی کے ایل آئی کے بارے میں ریمارکس دیئے اور اربوں روپے کی نشاندہی کی ہے دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ تعمیرات میں کئی گھپلے ہوئے اور انتہائی مہنگے ریٹس پر فی اسکوائر فٹ کنسٹرکشن کروائی گئی۔ آنیوالے دنوں میں اس حوالے سے کئی بےضابطگیاں ظاہر ہوں گی۔ اس ادارے کے بارے میں بھی کہا گیا تھا کہ یہ اسٹیٹ آف دی آرٹ ہے۔ اسی طرح موجودہ حکومت تمام ٹیچنگ اسپتالوں میں اسٹیٹ آف دی آرٹ گائنی وارڈ بنانے کا پلان بنا رہی ہے۔ اس وقت تمام سرکاری اسپتالوں کے شعبہ گائنی کے حالات انتہائی ابتر ہیں۔ اگر لاہور جیسے بڑے شہروں کے ٹیچنگ اسپتالوں میں گائنی وارڈز میں ایک ایک بیڈ پر تین سے چار حاملہ خواتین لیٹی ہوئی ہیں تو سوچیں چھوٹے شہروں میں کیا حال ہوگا۔ شعبہ گائنی کو اپ گریڈ کرنے کیساتھ ساتھ وہاں پر ایسے ڈاکٹر تعینات کئے جائیں جن میں لالچ کوئی نہ ہو۔ جو ڈاکٹری کے پیشے کو مقدس سمجھیں اور مریضوں کی خدمت کو اپنا شعار بنائیں۔ حالات یہ ہیں کہ سر گنگا رام اسپتال، لیڈی ایچی سن اور لیڈی ولنگڈن اسپتال کے آپریشن تھیٹرز میں زیادہ ڈلیوری کے کیس آ رہے ہیں جبکہ ایک منٹ کے لئے بھی تھیٹر کو صاف کرنے کا کوئی موقع نہیں ملتا نہ آلات کو جراثیم سے پاک کرنے کا وقت ملتا ہے کیونکہ آلات کو ایک مقررہ وقت تک جراثیم سے پاک کرنے کیلئے متعلقہ مشین میں رکھنا ضروری ہے۔

گائنی کی ممتاز ڈاکٹرز اتنی مصروف ہیں بعض اوقات ان کی کوتاہی اور لاپروائی سے حاملہ مائیں موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ حال ہی میں ایک دو اسپتالوں میں ڈاکٹروں کی غفلت اور غلط منصوبہ بندی کی وجہ سے حاملہ خواتین موت کے منہ میں چلی گئیں۔ اس وقت بہت برے حالات سرکاری اسپتالوں کے گائنی وارڈز کے ہیں۔ انفیکشن کا ریٹ بہت زیادہ ہے۔ اگر ہم پچھلے دس سال کا جائزہ لیں تو مسلم لیگ (ن) حکومت کی شعبہ صحت میں صرف کارروائی نظر آئے گی۔ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے پہلے 100دنوں میں اسپتالوں میں ایمرجنسی کی بہتری کے لئے پالیسی تیار کرلی ہے۔ ایمرجنسی وارڈوں کی ری ریمپنگ کے لئے رواں سال کے دوران اڑھائی ارب روپے خرچ کریںگے اور تمام میڈیکل کالجز اور میڈیکل یونیورسٹیز کے وائس چانسلرز 30اکتوبر تک ایمرجنسی وارڈز میں اصلاحات لائیں گے ماضی کی طرح دوبارہ ایمرجنسی میں ڈائریکٹرز کو لگایا جائے گا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ماضی میں بھی ایمرجنسی میں ڈائریکٹرز لگائے گئے تھے کیا اس سے حالات بہتر ہوئے تھے ؟ ناکام تجربوں کو دوبارہ کیا جا رہا ہے اصل ضرورت تو اس بات کی ہے کہ اسپتالوں میںایمرجنسی میں مریضوں اور زخمیوں کو بروقت ادویات ملتی ہیں انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ وہاں پر ڈائریکٹر ہیں یا ایم ایس ہیں مریض تو صرف دوائی چاہتا ہے اور وہ بھی معیاری۔ ہمارے ملک میں جو ادویات مفت دی جاتی ہیں پتہ نہیں ان میں اثر کیوں نہیں ہوتا۔ ایک معروف ڈاکٹر کے بقول جو ادویات سرکاری اسپتالوں کو دی جاتی ہیں ان کی کوالٹی بازار میں بکنے والی ادویات سے کم ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ ادویات اثر نہیں کرتیں۔(جاری ہے)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)