اک واری فیر، دل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے

October 04, 2018

اب تو ’’تراہ کڈھ ‘‘محققین باقاعدہ زہر لگنے لگے ، آئے روز ایسی تحقیق کہ لگے ملک الموت کے بلاوے ، کل ہی’’ ویانا تھنک ٹینک ‘‘کی ریسرچ نظر سے گزری، دنیا میں ہر تیسری موت دل کی وجہ سے اور پاکستان میں ہر گھنٹے بعد 24دل کے مریض اگلے جہان سدھار جائیں، ہم تو دل کے مریضوں پررشک کیا کرتے ،ہمیں تو آج بھی ہیررانجھا، لیلیٰ مجنوں attractکریں لیکن یہ پڑھ کر تو حالت اُس بیوی جیسی ،جس سے اس کے خاوند نے کہا’’ تمہارے دل میں میرے لئے کتنی عزت ہے‘‘ بیوی ’’اگر آپ چارپائی پر بیٹھے ہوں تو میں زمین پر بیٹھنا چاہوں گی ‘‘خاوند ’’اگر میں زمین پر بیٹھا ہوں تو ‘‘بیوی ’’تو میں گڑھے میں بیٹھ جاؤں گی ‘‘ خاوند’’ اور اگر میں گڑھے میں بیٹھ جاؤں تو ‘‘بیوی ’’ (بے بسی بھرے غصے سے ) تو میں اوپر سے مٹی ڈال دوں گی ‘‘ یا پھر وہ سردار جی یاد آجائیں کہ جو اپنے دوست کو بتار ہے تھے کہ’’ جدوں نواں نواں ویاہ ہویا، تے تیری بھرجائی اینی چنگی لگدی سی کہ دل کر دا اینوں کھا جاواں ‘‘دوست ’’ تے ہُن ‘‘ سردار ’’ ہن سوچاں ، کھا ای جاندا تے چنگا سی ‘‘ ۔

آگے سنیئے،’’ ویانا تھنک ٹینک ‘‘والوں کاکہنا کہ دل بیمار ہونے کی بڑی وجوہات سگریٹ نوشی ،ٹینشن اور فیملی ہسٹری ،یہیں رکئے ، چند ماہ پہلے برطانوی محققین کی تحقیق سامنے آئی کہ بے روزگاری اتنی مضرِ صحت کہ ایک دن بے روزگار رہنے کا مطلب 5پیکٹ سگریٹ پینا، اب دل کے مرض کی بڑی وجہ سگریٹ نوشی اور بندہ بے روزگار ہوتو سگریٹ نہ پی کر بھی پی رہا، کوئی جائے تو جائے کہاں ، سگریٹوں کے بارے میں ہماری وہی رائے جو لوگوں کی ہمارے بارے میں یا یوں کہہ لیں کہ جو فواد چوہدری کی میاں برادران کے بارے میں ، فواد صاحب سے یاد آیا، آجکل تو وہ گرج اور برس رہے ، حالانکہ ہم نے تو سنا تھا کہ جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں، اب تو گرجنے برسنے کی حالت یہ کہ جس دن نہ گرجیں، برسیں حکومت ،میڈیا کیا اپوزیشن والے کہتے پھریں ’’آج ہم کیا کریں ‘‘ ، کل ہی ایک دوست اپنے موبائل پر فواد چوہدری کی تصویر دکھا کر بولا’’ یہ بڑی ہی نایاب‘‘ عرض کی’’ اس میں کونسی خاص بات ‘‘دوست بولا’’ دیکھ نہیں رہے اس تصویر میں فواد چوہدری چپ بیٹھے ہوئے‘‘۔

اور سنئے ، ڈاکٹر ایڈگر جیسے پہنچے بزرگ کی تحقیق بتائے کہ خوبصورت بیوی صحت کیلئے مضر ،4ہزار مرے ہوئے شادی شدہ (ویسے شادی شدہ زندہ ہی کب ہوتے ہیں) مطلب 4ہزار مرچکے خاوندوں پر تحقیق کے بعد ڈاکٹر ایڈگر اس نتیجے پر پہنچا کہ بدصورت یا قبول صورت بیویوں کے خاوندوں کی اوسط عمر خوبصورت بیویوں کے خاندوں سے 12سال زیادہ، میرا دوست (ن) کہے ایسی کوئی بات نہیں ،بدصورت بیویوں کے خاوندوں کو ویسے ہی اپنی عمر زیادہ لگے ، لیکن ایڈگر کا اصرار کہ حسین بیوی کے خاوند 80فیصد زیادہ تناؤکا شکار، ہمیں تو یوں لگے یہ ان خاوندوں کا پروپیگنڈہ جن کی اپنی بیویاں خوبصورت نہیں، رنگ میں بھنگ ڈالنے والی بات ، ویسے کچھ خاوند بھی بڑے چالو، جیسے ایک دن بیوی نے میاں کا موبائل چیک کیا تو چند مشکوک نمبرز ایسے ناموں سے saveملے ، آنکھوں کا علاج ، ہونٹوں کا علاج ، دل کا علاج ،بیوی نے غصے میں اپنا نمبر ڈائل کیا تو اسکرین پر آیا لاعلاج ، اسی طرح ایک سردار نے اپنے شادی شدہ دوست سے مشورہ مانگا کہ ’’ یار کوئی گفٹ دس،جیڑا تیری بھرجائی نوں دیواں تے اوندے دل تے ٹھاہ کر کے وجے ‘‘یہ چالو بولا’’ گولی مار دے ،گفٹ دا گفٹ ،ٹھاہ دی ٹھاہ ‘‘۔

بات یہیں ختم نہیں ہوتی ،یہ امریکی تحقیق بھی آچکی کہ شادی شدہ، کنواروں سے 5سال زیادہ جئیں، شیخو کو بتایا تو بولا’’ اگر یہ سچ تو بھی 5سالوں کیلئے پوری زندگی ضائع کرنی کونسی عقلمندی ‘‘ ویسے بات شیخو کی ٹھیک ، کنوارہ ہو کر 5سال کم جی لینا ، گھاٹے کا سودا نہیں ، اپنے ٹیپو سلطان تو کب کے فرما چکے ’’ گیڈر کی سوسالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر‘‘، شادی کے بعد توانسان چھوڑیں ،پولیس والے بھی ایسے ہوجائیں کہ وہ تھانیدار یاد آجائے جس کے گھر چور گھسے ، بیوی سوتی رہ گئی ، چور صفایا کر گئے، چونکہ چوری پولیس والے کے گھر میں ہوئی، لہٰذا دو چار دنوں میں ہی نہ صرف چو رپکڑا گیا بلکہ سامان بھی برآمد کر لیا گیا ،اب ہتھکڑیوں میں جکڑے چورسے تھانیدار مسلسل ایک ہی سوال پوچھے جارہا تھا ’’بتاؤ تم میرے گھر میں داخل کیسے ہوئے تھے ، آخر تنگ آکر چورنے کہا’’میں چوری کا اقرار کر چکا، سامان آپ کو مل گیا، پھر با ربار یہ سوال کیوں ‘‘تھانیدار بولا’’ منحوس اس لئے پوچھ رہا ہوں کہ میں جب بھی گھر لیٹ گیا، جتنی بھی احتیاط کی ، بیوی کی آنکھ کھل گئی ‘‘ ، پولیس سے یاد آیا،ایک واقف کار نے کسی پولیس والے کو جب بتایا ’’فیض احمد فیض کی اتنی عزت تھی کہ ایک بار ریڑھی والے سے پھل لیا تو اس نے پیسے ہی نہیں لئے ‘‘تو پولیس والا بولا’’فیض صاحب جتنی عزت تو میری روزانہ ہو‘‘۔

بات کہاں سے کہاں جا پہنچی ، کہہ رہا تھا کہ ’’تراہ کڈھ‘‘ محققین ایک آنکھ نہ بھائیں ، لیکن یہ نہیں کہ سارے محققین ہی برے لگیں ،کچھ تو بہت اچھے، جیسے اپناوہ محقق دوست جو بچپن سے ہی اتنا تیزکہ بیک وقت 2 درختوں پر چڑھ جاتا ،جو سیانا ایسا کہ آواز سن کر مرض اوربیوی دیکھ کر خاوند کا انجام بتادے ،جس کا عمران حکومت کے چالیسویں مطلب 40دنوں پر تبصرہ یہ کہ ’’حکومت غریبی ختم کرنا چاہتی ہے مگر میرے خرچے پر‘‘ جس نے آج تک خطوطِ غالب اس لئے نہیں پڑھے کہ کسی کے خط پڑھنا غیر اخلاقی حرکت، جس کا کہنا کہ پاکستان سیاستدانوں ،مجرموں ، ڈاکٹروں کی جنت اور جس نے عمران ،ریحام علیحدگی پر لمبی چوڑی تحقیق کے بعد کہا’’ اس علیحدگی کی 2وجوہات ‘‘پوچھا گیا کونسی ، بولا’’ ایک عمران خان دوسری ریحام خان‘‘اسی محقق کی تحقیق کہ رمضان میں پیاس سے بچنا ہے تو روزہ نہ رکھو ، اسی کی ریسرچ کہ وہ شارک (مچھلی ) کچھ نہیں کہتی جومُردہ ہو اور اسی کا تحقیقاتی نچوڑ کہ دل کے مرض سے بچنا ہے تو دل کسی کو دے دو، اور سنیں اسی نے ایک دن سب دوستوں سے سوال کیا کہ دل میں سب سے زیادہ دردکب اُٹھے، ایک دوست نے کہا، میٹرک میں فیل ہونے پر، بولا ’’نہیں ‘‘دوسرے نے کہا’’ پیار میں دھوکہ کھانے پر،کہنے لگا’’نہیں ‘‘ تیسرا بولا ’’ہارٹ اٹیک ہونے پر‘‘ جواب آیا’’نہیں ‘‘ سب نے کہا آپ ہی بتادیں‘‘ بولا ’’جب کسی کے گھر جائیں اور وہاں نیٹ نہ چلے یا اپنا موبائل چارجنگ کیلئے لگا کر ایک گھنٹہ بعد آکر دیکھیں اور پتا چلے کہ سوئچ ہلاہوا‘‘۔

صاحبو!آپکی بیوی خوبصورت یا قبول صورت ،اس کا تو اب کچھ نہیں ہوسکتا ،سزا تو کاٹنا ہی پڑے گی اور سزا خوبصورت ہو یا قبول صورت،سزا سزاہی ہوتی ہے لیکن دل کی بیماری سے بچنے کا طریقہ موجود کہ دل فوراً کسی کو دے دیں ، لہٰذا جلدی کرلیں ورنہ یہی گنگناتے رہ جاؤ گے کہ

وہ بھی بس پہ چڑھ گئی ،اسیں سڑک تے کھلوتے رہ گئے

اک واری فیر ،دل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)