نئے کرائے دار اور اصل مالکان

October 11, 2018

ہمارے ہاں جب بھی کوئی نئی حکومت آتی ہے تو خودداری اور خود انحصاری کا نعرہ مستانہ بلند کرتے ہوئے کشکول توڑنے کو اپنا فرض منصبی سمجھا جاتا ہے۔ سادہ لوح عوام فرط جذبات سے زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں۔ ان نعروں کی گرد بیٹھتے ہی نئی حقیقت منکشف ہوتی ہے تو لوگ نیا کشکول دیکھ کر ٹھٹھک جاتے ہیں۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ کشکول توڑنے کا مقصد بھیک مانگنے کی روش ترک کرنا ہرگز نہیں تھا بلکہ بڑھتی ہوئی معاشی ضروریات کے تحت پرانا کشکول چھوٹا پڑ گیا تھا اس لئے اسے توڑ کر نیا کشکول تیار کیا گیا ہے۔ اگلا مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ نوزائیدہ حکومت تمام تر خرابیوں اور برائیوں کا ملبہ گزشتہ حکومت پر ڈال دیتی ہے اور قوم کو نہایت درد مندی سے بتایا جاتا ہے کہ قومی خزانہ خالی ہے۔ ٹرک ڈرائیوروں کی طرح ملک کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنے والے بھی سب سے پہلے یہ جملہ تحریر کرواتے ہیں ’’چور دے پترا ٹول باکس خالی اے‘‘ پیپلز پارٹی کی حکومت پانچ سال یہ بتاتی رہی کہ وہ پرویز مشرف کا ڈالا ہوا گند صاف کر رہی ہے، مسلم لیگ (ن) کی حکومت یہ باور کرواتی رہی کہ پیپلز پارٹی کی غلطیوں اور کوتاہیوں کا ازالہ کیا جا رہا ہے اور اب تحریک انصاف کی حکومت بھینسیں بیچ کر ملک چلانے کی کوشش کر رہی ہے۔ گاہے خیال آتا ہے کہ جب لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیراعظم بنے تو انہوں نے ملک کو درپیش صورتحال کا ذمہ دار کسے قرار دیا ہو گا؟ ان سے پہلے تو پاکستان کا وجود ہی نہ تھا، عین ممکن ہے وہ لارڈ مائونٹ بیٹن اور برطانوی استعمار کو برا بھلا کہہ کر وقت گزار لیتے ہوں۔ بہرحال یہ ہمارا قومی طریقہ واردات تو تھا ہی مگر ہمارے ہر دلعزیز کپتان نے اس واردات کا بھی ایک ایسا نیا انداز متعارف کروایا ہے جس پر سب عش عش کر اٹھے ہیں۔

اس قومی واردات کے نئے انداز پر روشنی ڈالنے سے پہلے ضروری ہے کہ میں اپنے قارئین کو کپتان کی عادات و اطوار اور مزاج سے آشنا کر دوں۔ یہ میرے کپتان کی ہی شان ہے کہ جب تک ڈوبنے کا یقین نہ ہو جائے تب تک ہاتھ پائوں نہ مارے جائیں 1992ء کے ورلڈ کپ میں قومی کرکٹ ٹیم ہارتے ہارتے اچانک جیت گئی تو کپتان کو یقین ہو گیا کہ ہار کو جیت میں بدلنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے تو کیوں نہ ہر بار جیتنے سے پہلے میچ کو دلچسپ بنا دیا جائے۔ انہوں نے کھیل کے میدان میں سیاست کی اور ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست سے کھلواڑ کر رہے ہیں۔ آپ سسکتی اور بلکتی معیشت کو غیر ملکی قرضوں کا انجکشن لگانے کی مثال لے لیں۔ اگر حلف اٹھاتے ہی قوم سے کئے گئے پہلے خطاب میں رجوع کر لیا جاتا، باعزت طریقے سے یہ اعتراف کرنے میں حرج ہی کیا تھا کہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے جوش خطابت میں جو بلند بانگ دعوے کئے گئے انہیں سنجیدگی سے نہ لیا جائے، قرضے لینے کی نوبت آنے پر خودکشی کرنے کی بات اور اس نوع کے دیگر بیانات کو منسوخ سمجھیں، موجودہ معاشی نظام میں قرضے ہر ملک لیتا ہے، ہم کوشش کریں گے کہ ان قرضوں کو درست طریقے سے استعمال کریں۔ ایسی صورت میں بھی سیاسی مخالفین تابڑ توڑ حملے کرتے لیکن وینٹی لیٹر پر پڑی معیشت کی سانس نہ اکھڑتی۔ کپتان نے ہوائی قلعے تعمیر کرکے قوم کو بانس پہ نہ چڑھایا ہوتا تو شاید آئی ایم ایف سے رجوع کرنے پر اتنی ہاہاکار نہ مچتی۔ آئی ایم ایف سے رجوع کرنے والی یہ پہلی پاکستانی حکومت نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی حسب ضرورت غیر ملکی قرضے لئے جاتے رہے ہیں لیکن کپتان نے مراد سعید کی باتوں کو سنجیدگی سے لیا اور اس کا نتیجہ پوری قوم بھگت رہی ہے۔

اسد عمر کو نئے پاکستان کا ’’برین‘‘ کہا جاتا ہے اور وہ پرانے پاکستان میں بتایا کرتے تھے ڈالر کی قیمت بڑھنے سے ملکی معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں اور جب حکومت قرضے کی نئی قسط وصول کرتی تو عوام کو آگاہ کیا جاتا کہ اس سے ہر نوزائیدہ بچے کے ذمہ قرض میں مزید کتنا اضافہ ہو گیا ہے۔ اگر مناسب سمجھیں تو اب بھی قوم کی رہنمائی فرما دیں کہ اسٹاک ایکسچینج کریش کرنے سے کتنے ارب روپے ڈوب گئے؟ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت ایک ہی دن میں 124روپے سے بڑھ کر 137روپے ہو جانے سے غیر ملکی قرضوں کے حجم میں کتنا اضافہ ہوا؟ پرانے پاکستان میں ہر پاکستانی کس قدر مقروض تھا، ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور آئی ایم ایف سے قرضوں کے حصول کے بعد اس قرض میں کتنا اضافہ ہو جائے گا۔ میں معاشی گورکھ دھندوں اور اعداد و شمار کی جادوگری سے ناواقف ہوں مگر پھر بھی چند نکات کی وضاحت تو کر ہی سکتا ہوں۔ ڈالر کی قیمت میں ایک ہی دن ہونے والے اضافے سے مہنگائی کا جو سیلاب آرہا ہے وہ تو اپنی جگہ مگر غیر ملکی قرضوں کے حجم میں ایک ہی دن میں 900ارب روپے کا اضافہ ہو گیا ہے۔ یہ کتنی بڑی رقم ہے اس کا اندازہ یوں لگائیں کہ زبردستی وصول کئے گئے دیامر بھاشا ڈیم فنڈ میں تمام تر کوشش کے باوجود اب تک بمشکل 4ارب روپے جمع ہو سکے ہیں۔ اس طرح کے منصوبوں کی لاگت کا تخمینہ ڈالر میں لگایا جاتا ہے اور سابقہ تخمینہ جو 1450ارب روپے تھا، ڈالر کی قیمت بڑھنے سے اس میں کئی ہزار ارب روپے کا اضافہ ہو گیا۔ یعنی نہ صرف اب تک جمع کیا گیا چندہ برف کی طرح پگھل گیا بلکہ مزید کئی سال جھولی پھیلائے رکھیں تو تب کہیں جا کر محض یہ نقصان پورا ہو گا۔

کپتان تو اپنی عادت کے ہاتھوں مجبور ہے کہ ہر میچ کو ہارتے ہارتے جیتنا ہے مگر یہ معیشت کا میدان ہے جہاں آپ جیتتے جیتتے بھی اچانک کسی ایک غلط فیصلے کی وجہ سے بدترین شکست سے دوچار ہو سکتے ہیں۔ تکلف برطرف، یہ تو کرایہ دار ہیں، مہلت ختم ہونے پر چلے جائیں گے مگر اس تباہی و بربادی کی قیمت تو مالکان کو ادا کرنا ہے۔ کیا کبھی آپ نے ایسا منظر دیکھا ہے کہ کسی گھر کو آگ لگی ہو اور لپکتے شعلوں کے درمیان بیٹھے گھر کے مکین حقِ ملکیت پر جھگڑ رہے ہوں؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)