ایک ”دیوان غالب“ کا سوال ہے!.

December 08, 2012

آئیے، ایک اسکیم بناتے ہیں۔ کراچی کے ایک دولت مند علاقے مثلًا ڈیفنس میں ایک سڑک کا انتخاب کرتے ہیں جو دو بڑے خیابانوں کے درمیان ہو اور جس میں کوئی 30 یا 40کے قریب گھر ہوں۔ وہاں ہم ہر دروازے پر جا کر یہ سوال کریں کہ کیا آپ کے گھر میں ”دیوان غالب“ ہے؟ آپ کا کیا خیال ہے، کتنے فی صد ایسے گھروں میں کہ جن کے پورچ میں دو یا تین کاریں کھڑی ہوں ”دیوان غالب“ موجود ہوگا؟ یہاں آپ ”دیوان غالب“ کو محض ایک علامت سمجھیں۔ اقبال یا فیض سے بھی کام چل سکتا ہے۔ کیونکہ شاعری ہماری ذہنی اور جذباتی زندگی کا حصہ ہے اس لئے میں نے ”آگ کا دریا“ یا ”اداس نسلیں“ کا ذکر نہیں کیا اور اس امکان کو نظر انداز کئے بغیر کہ واقعی دو چار گھروں میں ”دیوان غالب“ موجود ہو یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے پڑھے لکھے اور معاشرے میں نمایاں مقام رکھنے والے طبقے میں پڑھنے لکھنے کا کوئی خاص رواج نہیں ہے۔ اندرون ملک ہوائی سفر میں کتنے مسافر کتاب پڑھتے دکھائی دیتے ہیں؟ بات اردو کی ہو رہی ہے لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ اس کی پیدائشی (مادری نہیں) زبان انگریزی ہے تو آپ شیکسپیئر کی کلیات کا تقاضا بھی کر سکتے ہیں۔ یہ فرمائش بھی کی جا سکتی ہے کہ حضور، ہمیں اپنی ذاتی لائبریری تو دکھا دیں؟
کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ اس موضوع کو چھیڑنے کا یہ مناسب موقع نہیں ہے کیونکہ کراچی میں ”سردیوں کے اس مہینے میں“ علم وادب اور کتابوں کے پھول کھلے ہیں۔ آرٹس کونسل میں پانچویں عالمی اردو کانفرنس منعقد ہوئی ہے اور ایکسپو سینٹر میں کتابوں کا عالمی میلہ سجا ہے۔ گو یا ایک موقع ملا ہے۔ کتاب دوستوں کو ایک دوسرے سے ملنے اور اپنے پسندیدہ موضوعات پر گفتگو کرنے کا۔ آبادی سے لبالب بھرے اس شہر میں اتنے باذوق لوگ تو ہیں جو دیواروں سے گھری کسی جگہ میں میلہ کا سماں پیدا کر دیں۔ میرا مسئلہ البتہ یہ ہے کہ ایسی تقریبات میرے اس دکھ میں اضافہ کرتی ہیں کہ ہم علمی، فکری اور تہذیبی سطح پر کتنے مفلس ہیں۔ کتابیں عام لوگوں کی زندگی میں کوئی خلل پیدا نہیں کرتیں۔ مطالعے کا شوق اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے طالب علموں تک میں انتہائی محدود ہے۔ میں جب اس ضمن میں اپنے ملک کا دوسرے ملکوں سے موازنہ کرتا ہوں اور جو اعداد وشمار میسر ہیں ان کا جائزہ لیتا ہوں تو دل ڈوبنے لگتا ہے۔ میری نظر میں یہ سب سے بڑا پیمانہ ہے اس بے راہ روی اور افراتفری کا جس سے ہم دو چار ہیں۔ صورت حال مسلسل خراب ہوتی جا رہی ہے۔ پاکستانی ذہن صحرا میں تبدیل ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ انگریزی، اردو اور مادری زبانوں کی کشمکش نے ہمیں بے زبان بنا دیا ہے۔پچھلے مہینے تین دن میں نے پشاور میں گزارے۔ بچوں کا ادبی میلہ وہاں لگا تھا۔ دانشوروں اور اساتذہ سے ملاقاتیں رہیں۔ کئی نے شکوہ کیاکہ اتنے بڑے شہر میں کتابوں کی کوئی اچھی دوکان اب باقی نہیں رہی۔ ایک صحافی نے اپنے ایک انگریزی مضمون کا ذکر کیا جو ایک بڑی دوکان کے بند ہو جانے کا نوحہ تھا۔ میں پشاور کلب میں ٹھہرا تھا۔ پاس کے صدر بازار گیا تو دوکانوں کی چکاچوند نے حیران کر دیا۔ کمرشل زندگی پوری آب وتاب کے ساتھ رواں تھی۔ مغرب کے بعد جواہرات کی چند دوکانوں کی چکاچوند دید کے قابل تھی۔ اس سارے منظر میں کتابوں کی دوکان جیسا کوئی شجر سایہ دار نہ ملا۔ لاہور اور اسلام آباد میں کتابوں کی چند اچھی دوکانیں ضرور ہیں۔ اسلام آباد میں پردیسی بہت ہیں اس لئے وہاں کتابوں یعنی انگریزی کتابوں کی کھپت کافی ہے۔ کراچی اور پشاور کئی دوسرے معنوں میں جڑواں شہر ہیں۔ بھائیوں جیسے شہر کہ جہاں بھائی، بھائی سے دست وگریباں ہے۔ پشاور کے مرکزی بازار کی ایک ذیلی سڑک بلکہ گلی میں مجھے اردو کی چند دوکانیں ملیں۔ کراچی میں اردو بازار ایک سہارا ہے۔ لیکن بنیادی بات یہی ہے کہ کتابوں سے ہمارا رشتہ بہت کمزور ہے۔ ایک اور مشق بھی ایسی ہے جو کی جانی چاہیئے۔ نامہ نگاروں کی ایک چھوٹی ٹیم کراچی کے صدر بازار یا کسی اور بڑے بازار کا یہ سروے کرے کہ وہاں جواہرات کی کتنی دوکانیں ہیں اور کتابوں کی کتنی۔ اگر آپ کراچی میں رہتے ہیں تو اگلی بار جب آپ صدر جائیں تو یہ دیکھیں کہ جواہرات کی دوکانیں کتنی ہیں اور ان میں جو مال بکتا ہے اس کی قیمتیں کتنی ہیں۔ شادیاں زیورات کے بغیر نہیں کی جا سکتیں۔ زندگیاں کتابوں کے بغیر گزر سکتی ہیں۔
میرا یہ مشن ہے کہ میں نوجوانوں میں مطالعے کا شوق پیدا کرنے کی کوشش کرتا رہوں۔ یہ بھی اب بتانے کی بات ہے کہ کتابیں مسرت حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہیں۔ فکشن ہمیں زندگی کرنے کا حوصلہ دیتا ہے۔ شاعری، اچھی شاعری ہمارے جذبات کی گرہیں کھولتی ہے۔ میں نوجوانوں سے یہ بھی کہتا ہوں کہ ناول نہیں پڑھو گے اور شاعری سے شناسائی نہیں ہو گی تو عشق کرنا کیسے سیکھو گے۔ اور شاعر نے تو یہ بھی کہا کہ ”عشق کرنا جو سیکھا تو دنیا برتنے کا فن آگیا۔“ میں نے یہ دیکھا ہے کہ ہمارے یہاں کتابیں نہ پڑھنے کے عذر کے طور پر دو جھوٹ بولے جاتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ اب انٹرنیٹ، ٹیلی وژن اور دوسرے ایسے جادوئی کھلونوں کے ہوتے ہوئے، کتابوں کی اتنی اہمیت نہیں رہی۔ گویا یہ انٹرنیٹ وغیرہ صرف پاکستان میں ایجاد ہوئے ہیں۔ دنیا میِں اور کہیں نہیں ہیں۔ دوسرا جھوٹ یہ ہے کہ کیا کریں، فرصت نہیں ملتی۔ اس کے جواب میں، میں کہتا ہوں کہ اچھا آپ صدر اوباما سے بھی زیادہ مصروف ہیں۔ دنیا کے جتنے بڑے لوگ ہیں۔ کتابیں پڑھے بغیر ان کا گزارا نہیں۔ اور یہ کتنے مزے کی مصروفیت ہے صرف وہی لوگ جانتے ہیں جنہیں اس کی عادت ہے۔ یہ وہ شوق ہے جو درسگاہوں ہی میں پروان چڑھ سکتا ہے۔
یہ سچ ہے کہ اب کمپیوٹر کی دنیا کی نئی ایجادات نے صدیوں سے جاری کتابوں کی ہیئت یا ساخت کو تبدیل کر دیا ہے۔ کاغذی پیرہن والی کتابوں کی فروخت میں کمی ہوئی ہے اور جنہیں ہم ڈیجیٹل کتابیں کہیں ان کی اشاعت میں اضافہ ہورہا ہے۔ لیکن اس انقلاب نے کتب بینی میں بھی ایک انقلابی اضافہ کیا ہے۔ اب زیادہ کتابیں لکھی اور پڑھی جا رہی ہیں۔ مہذب معاشروں میں کتابیں کتنے شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔ اسکی ایک مثال میں یہاں دینا چاہتا ہوں۔ ”ہیری پوٹر“ بچوں اور بڑوں کا ایک پسندیدہ کردار ہے۔ ہیری پوٹر کے سات ناول شائع ہوئے اور ان پر بنائی جانے والی فلموں نے اودھم مچادیا۔ میں اکثر یہ سوال پوچھتا ہوں کہ مختلف زبانوں میں یہ ناول کتنی تعداد میں فروخت ہوئے ہوں گے۔ اندازہ لگائیے کئی لاکھ؟ جی نہیں۔ کئی کروڑ جی ہاں۔ کئی نہیں پورے 45کروڑ۔ اور ان ناولوں کی مصنفہ جے کے رالنگ کو رائلٹی کے طور پر اتنی رقم ملی کہ وہ اب برطانیہ کی سب سے دولت مند خاتون ہیں۔ ملکہ برطانیہ سے بھی زیادہ دولت مند اور جب انہوں نے پہلا ناول لکھنا شروع کیا تھا تو گھر کا خرچ بھی مشکل سے پورا ہوتا تھا۔گفتگو کے لئے ابھی بہت کچھ باقی ہے۔ جو بات میری سوچ کا راستہ روکتی ہے وہ یہ ہے کہ ہم دوسرے ملکوں سے اتنے مختلف اتنے پیچھے کیوں ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے کہ بیشتر مسلمان ملک اور معاشرے ادب اور علم ودانش کے میدان میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پا رہے۔ یہ ایک مشکل اور حساس موضوع ہے۔ پھر بھی اس پر ٹھنڈے دل سے حقائق کی روشنی میں غور کرنا چاہئے۔ اس لئے ملتے ہیں۔ بریک کے بعد…!!