غزل: برہنہ شاخوں کا جنگل گڑا تھا آنکھوں میں

October 24, 2018

پروین شاکر

برہنہ شاخوں کا جنگل گڑا تھا آنکھوں میں

وہ رات تھی کہ کہیں چاند کا گزر ہی نہ تھا

تمھارے شہر کی ہر چھاؤں مہرباں تھی ،مگر

جہاں پہ دھوپ کھڑی تھی ،وہاں شجر ہی نہ تھا

سمیٹ لیتی ،شکستہ گلاب کی خوشبو

ہوا کے ہاتھ میں ایسا کوئی ہنر ہی نہ تھا

میں اتنے سانپوں کو رستے میں دیکھ آئی تھی

کہ تیرے شہر میں پہنچی تو کوئی ڈر ہی نہ تھا

کہاں سے آتی کرن، زندگی کے زنداں میں

وہ گھر ملا تھا مجھے، جس میں کوئی در ہی نہ تھا

بدن میں پھیل گیا ،سرخ بیل کی مانند

وہ زخم سوکھتا کیا، جس کا چارہ گر ہی نہ تھا

ہوا کے لائے ہوئے بیج، پھر ہوا میں گئے

کھِلےتھے پھول کچھ ایسے کہ جن میں زر ہی نہ تھا

قدم تو ریت پہ ساحل نے بھی رکھنے دیا

بدن کو جکڑے ہوئے صرف اک بھنور ہی نہ تھا