بلدیاتی ادارے اور ۔۔۔۔۔۔ارادے کی مضبوطی

October 29, 2018

minhajur.rabjanggroup.com.pk

بروزہفتہ عدالت عالیہ نے کراچی سے بالعموم اور ایمپریس مارکیٹ سے بالخصوص15 دن کے اندر تجاوزات ختم کرنے کا حکم دیا ہے۔ امید ہے کہ اس پر عملدرآمد مکمل طور پر ہوگا۔ خاص طور پر فٹ پاتھس خالی کروانے کا کام۔جوکہ پتھارداروں اور فلاحی اداروں کے مکمل قبضے میں ہیں۔ قبضہ ختم کروانے کے ساتھ اگر کراچی میں کچرے اور نالوں کی صفائی کا مسئلہ بھی حل کروادیا جائے تو اس لاوارث شہر پر بڑا کرم ہوگا ۔ بلدیہ عظمیٰ کراچی دراصل صفائی کی ذمہ دارہے۔ لیکن " بے چاری" بے اختیار ہے۔ آخر خاکروبوں سے صفائی کروادینے کے بعدمسئلہ حل ہوجاتا ہے یا پھر اس کچرے کو ٹھکانے لگانا اہم مسئلہ ہوتاہے۔ کیونکہ کچرے کو ٹھکانے لگانے کا اختیار صوبائی حکومت کو ہے۔ یوں دو سیاسی پارٹیوں کی اختیارات کی رسہ کشی میں بیچارہ یہ شہررل رہا ہے۔۔۔۔۔لیکن پھر بھی مایوسی نہیں ہے کبھی نہ کبھی تو اس کی بھی صفائی ہوگی۔ راقم کے ذہن میں بھی ایک تجویز ہے اگر ارباب اختیار کو مناسب لگے تو اختیار کرکے دیکھیں ورنہ جس طرح وہ مناسب سمجھیں تدبیر کریں۔ تو جناب سب سے پہلے یہ بات سمجھیں کہ سڑکوں ، گلیوں اور نالوں کیصفائی کا کام جزوقتی نہیں بلکہ کل وقتی ہے ۔ یعنی صبح صبح سب خاکروبوں کی حاضری لگی ،سب نے ایک ساتھ ہر علاقے میں جھاڑولگادیا اور پھر چھٹی اب اگلے دن کام ہوگا۔ ایسا نہیں ہے نہ ہی ایسے صفائی رہ سکتی ہے۔ خاکروب اوران کے سپروائزرز کے اوقات کار کو تقسیم کرناہوگا۔ آٹھ آٹھ گھنٹے کی دو شفٹس لگائی جائیں یا پھر چھ چھ گھنٹے کی تین شفٹس ۔ایک صبح چھ بجے سے دوپہر بارہ بجے تک اس شفٹ میں ناصرف سڑکوں پہ جھاڑولگے بلکہ سڑکوں پہ بار بار پھر کے گرے ہوئے کچرے کو اکٹھاکیا جائے۔ اوریہ سلسلہ پورے چھ گھنٹے رہے۔چھ گھنٹے گزرنے کے بعد اگلی شفٹ لگے جودوپہر 12 بجے سے شام 6 بجے تک یہی امور (ڈیوٹی) انجام دے۔ اور پھر شام چھ بجے سے رات 12 بجے تک یہی امور انجام دیئے جائیں۔ اب چاہے یہ کام مشین کےذریعے انجام دیئے جائیں یا انسانی ہاتھوں سے اوقات کا رکاتعین بہت ضروری ہے۔ اور سپروائزرز اس کو یقینی بنائیں ۔اور ان کے اوپر بھی چیک ضرورہو۔ابھی صورتحال یہ ہے کہ صبح حاضری لگتی ہے جھاڑو دیا جاتا ہے اور نوکری ختم۔ سرکار8 گھنٹے کام کے پیسے دیتی ہے اور ان کی نوکری مشکل سے ایک یا دوگھنٹے کی ہوتی ہے۔ اس کے بعد یہ نوکری کے اوقات میں پرائیویٹ گھروں یا اداروں میں کام کرتے ہیں۔ کوئی گھریلو ملازم بن کر، کوئی چوکیدار بن کر تو کوئیڈرائیور بن کر ۔ یوں حکومتی خرچہ تو پورا ہورہا ہے مگر کام نظرنہیں آرہا ہے ۔بلدیہ عظمیٰ کا ادارہ کوئی صبح 8 سے پانچ بجے کا ادارہ نہیں ہے بلکہ اس کو احساس کرنا ہوگاکہ بلدیاتی امورحاضر ملازمین سے کیسے کروائے جائیں۔ کیونکہ ملازمین سے کام لینے کے لیے بلدیہ بالکل بااختیار ہے ۔لہذا اب ضرورت اس امر ہے کہ یہ کام کرنے کا " ارادہ" توکریں ۔ دوسرے مرحلے میں نالوں کیصفائی صرف بارش کے مہینے آنے سے پہلے سال میں ایک دفعہ نہیں ہونی چاہیئے کیونکہ سال میں ایک دفعہ نالوں کیصفائی ہونے کی وجہ سے نالے بھرے رہتے ہیں یوں آئے دن گلی محلوں کے گٹرابل جاتے ہیں۔اگر نالوں کی ماہانہ صفائی کردی جائے تو ناصرف بارش کے مہینوں سے پہلے ہنگامی بنیادوں پہ صفائی کرنے کی ضرورت پڑے گی نہ ہی گلی محلوں میں گٹربلاوجہ ابلیں گے ۔آلودگی کم ہوگی تو بہت سی بیماریوں سے شہری محفوظ رہیں گے۔نالوں کی صفائی میں ایک مسئلہ یہ پیش آتا ہے وہ یہ کہ نالوں میں بھاری مشینوں سے صاف کرنے کے بعد کچرا کنارے پہ چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ چاہے یہ نالے بڑے ہوں یا چھوٹے ۔نتیجتاً کئی دن بدبو اورجراثیم کے سانس کےذریعے انسانی پھیپھڑوں کی خوراک بنتے رہتے ہیں۔ کبھی کبھی یہ اٹھالیے جاتے ہیں لیکن بڑے نالوںکے پاس جمع کئےہوئے کچرے دوبارہ واپس گرادیئے جاتے ہیں ۔ایسے میں نکاسی آب کا نظام کیسے درست ہوگا؟ تیسرے مرحلے میں جگہ جگہ کچروں کے ڈرم رکھے جائیں اور صرف مین روڈ کی نہیں بلکہ ہرگلی اور محلے کی صفائی ممکن بنائی جائےاور کچرااٹھانے کا مناسب بندوست ہو۔چوتھے مرحلے میں عوام کے کچرا پھینکنے پہ سخت کارروائی کی جائے اور جرمانہ عائد کیا جائے۔یقیناً ان تجاویز پہ عمل کرنا نہ تو مشکل ہے اور نہ ہی وسائل سے باہر ،نہ ہی اختیارات کی ضرورت ، ضرورت ہے تو " ارادہ" کی۔ ارادہ ہو تو سب کچھ آسان ہے ۔دوسرے جب ہم ہر کام وہ کرتے ہیں جو بین الاقوامی طور پر کیا جاتاہے تو جان لیجئے مہذب معاشرے اور ترقیاتی ممالک میںصفائی کا عمل ہر وقت ہوتا رہتا ہے۔ یقین نہ آئے تو صاحب اقتداروں سے پوچھ لیں جو اپنے فرصت کے لمحات بیرون ممالک میں گزارنےکوترجیح دیتے ہیں۔۔۔۔