حال بچاؤ،آل بچاؤ،مال بچاؤ

November 01, 2018

کیا منظر تھا ، زرداری صاحب اور شہباز شریف کا معانقہ بھرا مصافحہ کرنا، ایک دوسرے کو ضرورت بھرے پیار سے دیکھ دیکھ مسکرانا، پہلے آپ ،نہیں پہلے آپ کہہ کر اسمبلی ہال میں قدم رنجہ فرمانا ،مل بیٹھنے ، رابطے رکھنے کے عہدوپیماں کرنا۔ وقت بھی کیا ظالم شے ہے ، کل شہباز شریف جسے چوکوں ،چوراہوں میں لٹکانا چاہتے تھے ، جو چا لیس چوروں کا علی بابا تھا ، جسکا پیٹ چیرنا تھا ، جسے لاہور، لاڑکانہ کی سڑکوں پر گھسیٹنا تھا ، جسکے بار ے میں فرمایا کرتے ’’غیروں کے سامنے جھکنے والے زرداری تم نے تو ملک کا حشر نشر کر دیا ،بھکاری بنا دیا‘‘، وقت بدلا،مطلب پڑاتو اسی زرداری صاحب سے جپھی مارنے میں ایک سیکنڈ نہ لگایا ، زرداری صاحب کی سن لیں، کل تک ’شریفوں ‘ کا اصلی والا احتساب چاہتے تھے ،وہ مغل بادشاہ مطلب نواز شریف کی گرفتاری چاہتے تھے ، فرمایا کرتے ’’ میاں صاحب نے پاکستان کی جڑیں کاٹ دیں، وہ تو ’گریٹر پنجاب ‘ بنانے کے چکر میں ‘‘،منی لانڈرنگ کا گھیرا تنگ ہوا تو کل تک ’شریفوں‘ کو پکڑائی نہ دینے والے زرداری صاحب شہباز شریف کا ہاتھ پکڑے کھڑے ملے ، بھول گئے کہ نواز شریف کو دھرتی کا ناسور کہہ چکے ،مُک گیا تیرا شو نواز،گو نواز گو نوازکے نعرے مارچکے ، بھول گئے کہ جب نواز شریف ملنے کی درخواستیں کررہے تھے تو انکا جواب ہوتا ’’مومن ایک سوراخ سے بار بار نہیں ڈسا جاتا‘‘ وقت بھی کیا ظالم شے ہے،آج مومن پھر ڈسے جانے کی خواہش میں تڑپ رہا اور بلاول جس قاتل اعلیٰ سے ماڈل ٹاؤن قتلوں ،کمیشنوں ،کرپشنوں کا حساب لینا تھا ، کے پاپا اسی سے تجدید ِمحبت فرما رہے ۔

جب بھی سوچوں یہ کل جھوٹ بول رہے تھے یا آج اداکاریاں کر رہے ، یہ کل سچے تھے یا آج جھوٹے ،یہ کل صراطِ مستقیم پر تھے یاآج بھٹک گئے اوریہ کل دھوکے دے رہے تھے یا آج فراڈ کر رہے تو لگے یہی کہ کل بھی ہیراپھیریاں اور آج بھی گھمن گھیریاں ، کیونکہ یہ سب جماندرو سیانے ،ا ن کا بولنا، ان کی خاموشی ، ان کی تردیدیں ، انکی تصدیقیں ، ان کے دعوے ،انکے وعدے، انکی معصومیت ،انکی مظلومیت ،انکا ملنا، مل کر بچھڑنا ، بچھڑ کر ملنا،سب کچھ منصوبہ بندی سے ، سب کچھ اپنے فائدے کیلئے ،کل جب زرداری صاحب نے’ اینٹ سے اینٹ‘ بجانے والی تقریر فرمائی تو نواز شریف نے نہ صرف اگلی صبح طے شدہ ناشتہ میٹنگ کینسل کردی بلکہ پلٹ کرخبر ہی نہ لی کیوں ، اس لئے کہ تب نواز شریف کا اسی میں فائدہ تھا، جب میاں صاحب پاناما میں پھنسے تو زرداری صاحب نے خواجہ آصف کا فون سننا بھی گوارہ نہ کیاکیوں ،اس لئے کہ تب زرداری صاحب کا اسی میں فائدہ تھا، دھرنوں کے دورا ن دونوں اکٹھے تھے کیوں ،اس لئے کہ تب اسی میں دونوں کا فائد ہ تھا، یا د آیا برے وقتوں میں جس خواجہ آصف کا زرداری صاحب نے ایک فون بھی نہ سنا، اسی خواجہ آصف نے وصیت کے زور پر پارٹی چیئرمینی لے چکے زرداری صاحب کی تب مدد کی جب وہ وزارت عظمیٰ کی دوڑ سے امین فہیم کو آؤٹ کرنا چاہ رہے تھے ،پھر خواجہ آصف نے کیسے نواز شریف کی مرضی سے امین فہیم کے خلاف یہ بیان دے کر کہ ’’ ان کے تو اسٹیبلشمنٹ سے درپردہ تعلقات ہیں ‘‘ مخدوم صاحب کا پتا صاف کیا ،یہ سب ،سب کومعلوم ۔

آج چونکہ نواز شریف کو اوپر تلے 3ریفرنسز کا سامنا، شہباز شریف آشیانہ اور56کمپنیوں کے رُولوں میں اورزرداری صاحب، بہن اور چہیتوں سمیت منی لانڈرنگ دلدل میں،لہٰذا آج پھر فاصلے سمٹ رہے کیوں ،اس لئےکہ اسی میں ان کا فائدہ ، اس بار’ میلاپ گاڑی ‘کے ڈرائیور مولانافضل الرحمٰن ، وہ ڈرائیونگ سیٹ پر کیوں، اس لیے کہ اسی میں ان کا فائدہ ،ا س طرح تو ہوتا ہے ،اس طرح کے کاموں میں ،نواز شریف اقتدار میں تھے تو ڈان لیکس غلط ،اقتدار سے نکلے تو ڈان لیکس ٹھیک کیوں ،اس لئے کہ اسی میں ان کا فائدہ ،نواز شریف وزیراعظم تھے تو ’عمران دھرنوں‘ کے پیچھے کوئی خفیہ ہاتھ نہ تھا ،وزارت عظمیٰ گئی تو دھرنوں کے پیچھے خفیہ ہاتھ نظر آگیا کیوں، اس لئےکہ اسی میں ان کا فائدہ ،اقتدار میں تھے تو پرویز مشرف کو جانے دیا ،اقتدار سے نکلے تو مشرف کو واپس لانے کی صدائیں دینے لگے کیوں ،اس لئےکہ اسی میں ان کا فائدہ ، جلا وطن تھے تومیثاقِ جمہوریت کی جپھیاں، وطن واپسی ہوئی تو میثاقِ جمہوریت ہَوا ہوئی کیوں، اس لئےکہ اسی میں ان کا فائدہ ،حدیبیہ فیصلہ کرنے والی سپریم کورٹ کما ل کی ، نااہل کرنے والی سپریم کورٹ بغض وعناد سے بھری ہوئی کیوں ، اس لئے کہ اسی میں ان کا فائدہ ۔

شہباز شریف کی بات کر لیں ، راتوں کو مفاہمتیں ،دن کے اجالوں میں حبیب جالبیاں ،اس لئے کہ اسی میں ان کا فائدہ ، ریلی لاہور ائیرپورٹ نہ پہنچے ، فلائٹ اسلام آباد نہ آپائے ، مشکل وقت میں کمر درد نکل آئے کیوں ،اس لئے کہ اسی میں ان کا فائدہ ،زرداری صاحب تو کمال ہی کر چکے، رائے ونڈ جاکر پچاس کھانے کھا لیں یانواز شریف کو قومی سلامتی کیلئے خطرہ قرار دیدیں یابلاول سے نوازشریف کو مودی کا یار کہلو اکر،گلی گلی شور ہے ،نوا زشریف چور ہے کے نعرے لگوالیں ، بی بی کے قاتلوں کو جانتاہوں کہہ کر پھر 5سالہ صدارت میں قاتلوں کی بات نہ کریںکیوں ،اس لئے کہ اسی میں انکا فائدہ، ابھی انتخابات ہوئے ،پہلی اے پی سی ہوئی ،زرداری ،بلاول نہ تھے کیوں ،اس لئے کہ اسی میں ان کا فائدہ ،دوسری اے پی سی میں زرداری ،بلاول کیساتھ نواز،مریم بھی نہیں کیوں ،اس لئےکہ اس میں ان کا فائدہ ،سب نے کہا الیکشن جعلی ،اسمبلیاں نقلی ،سب کے سب اسی سیٹ اپ کا حصہ بن گئے کیوں ،اس لئےکہ اسی میں سب کا فائدہ ۔حال یہ کہ زرداری صاحب بول رہے لیکن خاموشی سے بہت کچھ کر بھی رہے ، نواز شریف بظاہر چپ لیکن اندر اندر بہت کچھ کہہ بھی رہے ، بتانے کا مقصد یہ کہ نواز شریف کی چپ ،زرداری صاحب کا بولنا ،مولانا کی بھاگ دوڑ، سب اپنے اپنے چکر ،سب اپنے اپنے ایجنڈے، سب اپنے اپنے مفادات ،کہیں کیسز ختم کرو، کہیں لاڈلوں کو کچھ نہ کہو ، کہیںمٹی پاؤ،ویسے آپس کی بات ہے جس طرح کا بھی ’ممی ڈیڈی‘ احتساب ہورہا ،قید میں گھر کے کھابے، رنگ برنگی ملاقاتیں ،صبح وشام کی واکیں اورمنڈیلا پن ،حالت یہ کہ شہباز شریف کو دیر سے لانے پر اپوزیشن واک آؤٹ کر جائے اور حکومت ترلے منتیں کرنے مطلب منانے پہنچ جائے، اس ’ممی ڈیڈی ‘ احتساب میں کچھ اگلوایا اور نہ نکلوایا جا سکے گا،اگر کوئی سنجیدہ ہے تو اگلوانے ،نکلوانے کے دوطریقے ،ایک چین کا ،دوسرا سعودی عرب کا ،خیر چھوڑیں ،ذرا یہ ملاحظہ کریں، مولانا، نواز شریف کو ’اے پی سی‘ میں شرکت کیلئے راضی کرنے گئے تو میاں صاحب بولے ’’میری اورمریم کی گرفتاری ‘ پر’ اے پی سی ‘تو کی نہیں ،اب کیوں ہور ہی ‘‘ یقین جانیے اس ایک فقرے میں گزشتہ تین دہائیوں کی سیاست کا نچوڑ ،مطلب مجھے بچایا جو میں اب بچاؤں ، مطلب مجھے بچاتے تو میں تمہیں بچاتا مطلب کل بھی سب کا سب کچھ اپنے اور اپنوں کیلئے، آج بھی سب کا سب کچھ اپنے اور اپنوں کیلئے ،پھر سے اپنا پرانا جملہ یا دآگیا کہ سب کا سب کچھ ’’حال بچاؤ،آل بچاؤ اور مال بچاؤ‘‘۔