خیالی کرپشن کے آگے بند باندھنے کی کوشش

November 01, 2018

A wizard told him in these words our fate: At length corruption ,like a general flood(so long by watchfull ministers withstood) shall deluge all;

محولہ بالا اقتباس 18ویں صدی کے معروف دانشوراور شاعر الیگزینڈر پوپ کی ایک تصنیف سے لیا گیا ہے ۔ان کی علمی و ادبی خدمات کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ آکسفورڈڈکشنری میں شیکسپیئر کے بعد سب سے زیادہ الیگزینڈر پوپ کا نام آتا ہے۔مجھے لگتا ہے الیگزینڈر پوپ کے اس قول سے متاثر کسی شخص نے ہمارے اولین حکمرانوں کے کان میں پھونک ماردی تھی کہ کرپشن کے سیلاب بلا خیز کے آگے بند نہ باندھا گیا تو یہ تمہیں خس و خاشاک کی مانند بہا کر لے جائے گا۔یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد آنے والی ہر حکومت نے کرپشن کے خیالی دریائوں پر احتساب کے پشتے مضبوط کرنے کی کوشش کی ۔نوزائیدہ ملک میں صوبائی سطح پر ایک چھوٹا سا انسداد بدعنوانی سیل ہوا کرتا تھا جسے ون یونٹ کی تشکیل کے بعد ادارہ برائے انسدادبدعنوانی کا نام دیکر ایک الگ ڈائریکٹوریٹ بنا دیا گیا۔ایوب خان نے اس اینٹی کرپشن ڈائریکٹوریٹ کو اضلاع کی سطح پر پھیلا دیا اور پھر ایبڈو جیسے قوانین کے ذریعے عمل تطہیر کا آغاز کیا جس سے سینکڑوں سیاستدان نااہل قرار پائے۔یحییٰ خان اور پھر ذولفقار علی بھٹو نے بدعنوان افسر شاہی کو نکیل ڈالنے کی کوشش کی ۔ضیاء الحق تشریف لائے تو کڑے احتساب اور کرپشن کی روک تھا م کے لئے ایک نئے ادارے کی ضرورت محسوس کی گئی جسے محتسب اعلیٰ کا نام دیا گیا اور آج بھی یہ ادارہ وفاقی و صوبائی محتسب کے نام سے اپنے فرائض کی ادائیگی کے لئے کوشاں ہے۔غلام اسحاق خان صدرمملکت بنے تو انہوں نے بھی کرپشن کی مبینہ لہروں سے تصوراتی طغیانی کا بروقت اِدراک کرتے ہوئے ہنگامی حالت نافذ کر دی اور منتخب نمائندوں کا احتساب کرنے کے لئے صدارتی حکم نامے کے ذریعے خصوصی عدالتیں قائم کر دیں ۔سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹوکے خلاف کرپشن کے الزامات کے تحت 6ریفرنس فائل کئے گئے ،ان کے ساتھی جہانگیر بدر سمیت پیپلز پارٹی کے کئی دیگر رہنما بھی زیر عتاب آئے ۔صدر غلام اسحاق خان کے دست راست روئیداد خان نے اپنی کتاب "Pakistan-a dream gone sour"میں نوازشریف پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے یہ الزام عائد کیا ہے کہ ان کی عدم توجہی اور غیر دلچسپی کے باعث یہ ریفرنس منطقی انجام کو نہ پہنچ سکے اور احتساب کے خواب ادھورے رہ گئے۔مگر جب میاں نوازشریف دوسری مرتبہ وزیراعظم بنے تو سیف الرحمان کی سربراہی میں ـ’’احتساب سیل ‘‘ تشکیل دے کر نئے سرے سے چھان بین کا فیصلہ ہوا، ایس جی ایس ،کوٹیکنا،ارسس ٹریکٹر ،پولو گرائونڈ اور آمدنی سے زائد اثاثہ جات سمیت نہ جانے کتنے ہی مقدمات بنائے گئے ۔سرے محل کے افسانے اخبارات کی زینت بنے۔جناب آصف زرداری کو مسٹر ٹین پرسنٹ کہہ کر بدنام کیا گیا ۔بینظیر بھٹو کو جیل کی ہوا کھانا پڑی ۔آصف زرداری نے تو اپنی 20سالہ ازدواجی زندگی کے 11سال سلاخوں کے پیچھے گزار دیئے لیکن نہ کوئی الزام ثابت ہو سکا اور نہ ہی لوٹی ہوئی خیالی رقم واپس لائی جا سکی ۔بینظیر بھٹو خود کش حملے میں شہید ہو گئیں اور آصف زرداری تمام ریفرنسز میں باعزت بری ہوگئے ۔

پرویز مشرف نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی تو سیاستدانوں کے کڑے احتساب کے لئےقومی احتساب بیورو کے نام سے ایک نیا ادارہ تشکیل دیا گیا اور قوم کو یہ خوشخبری سنائی گئی کہ لوٹی ہوئی تمام رقم واپس آنے کو ہے لیکن ـ ’’خواب تھا جو کچھ دیکھا جو سنا افسانہ تھا ‘‘کے مصداق سب امیدیں جھوٹی اور تمام توقعات غلط ثابت ہوئیں اب ایک بار پھرخیالی کرپشن کے سیلاب بلا کے آگے بند باندھنے کی سر توڑ کوششیں کی جا رہی ہیں ۔عوام کو یہ مژدہ جانفزا سنایا جا رہا ہے کہ پاکستان میں لوٹ مار سے جمع کیا گیا وہ کالا دھن جو سوئس بنکوں میں پڑا ہے ،اسے واپس لایا جائے گا ۔چند روز قبل جب عام افراد کے بنک اکائونٹس میں بھاری رقوم آنا شروع ہوئیں تو مجھے ایک بھارتی فلم کی کہانی یاد آگئی۔2017ء میں ایک فلم ریلیز ہوئی جس کا نام ہے ـ’’کمانڈو (2)‘‘اس فلم کے آغاز میں بتایا جا تا ہے کہ ہندوستان میں ہر سال 4000سے زائد کسان خودکشی کرنے پر مجبور ہوتے ہیں کیونکہ اس ملک کے سیاستدان لوٹ مار کرتے ہیں ۔بتایا جا تا ہے کہ ایک رپورٹ کے مطابق غیرملکی بنکوں میں بھارتی کالے دھن کا تخمینہ 181ارب ڈالر ہے ۔اگر یہ رقم واپس آجائے تو ہر بھارتی شہری کے اکائونٹ میں15لاکھ روپے آسکتے ہیں۔فلم کی کہانی کچھ یوں ہے کہ سیاستدانوں کا کالا دھن سفید کرنے والا مرکزی کردار ـ’’وکی چڈا‘‘ملائشیا میں پکڑا جاتا ہے،اس سے تفتیش کرنے اور اسے واپس لانے کے لئے سکیورٹی اداروں کی طرف سے ایک خصوصی ٹیم تشکیل دی جاتی ہے جس میں ایک کمانڈو بھی شامل ہوتا ہے۔یہ لوگ ملائشیا میں ایک کامیاب آپریشن کے نتیجے میں لوٹی ہوئی دولت واپس لانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور ایک دن اچانک غریب کسانوں کو بذریعہ ٹیکسٹ میسج یہ دھماکہ خیز خبر موصول ہوتی ہے کہ ان کے اکائونٹ میں لاکھوں روپے آگئے ہیں ۔جب مجھے پتہ چلا کہ کراچی میں کسی فالودے والے کے اکائونٹ میں کروڑوں روپے دریافت ہوئے ہیں تو ایک لمحے کو یہ خیال آیا کہ کہیں سوئس بنکوںمیں پڑے 200ارب ڈالر واپس تو نہیں آگئے ۔مگر جلد ہی یہ خوش فہمی دور ہو گئی اور معلوم ہوا کہ یہ جعلی بنک اکائونٹس ہیں۔

ایف بی آر اور ایف آئی اے کے بعض افسروں سے ان اکائونٹس سے متعلق بات ہوئی تو بتایا گیا کہ اس بار آصف زرداری صاحب کا بچنا بہت مشکل ہے اور وہ بہت جلد جیل میں ہونگے ۔اب یہ سب ادارے جھوٹ تو نہیںبول سکتے ،یقینا ًسچ ہی ہونگی یہ باتیں لیکن ماضی بعید اور پھر قریب کی بعض گھاتیں یاد آتی ہیں تو یہ نئی چھاچھ بھی پھونک کر پینے کو دل کرتا ہے۔یاد ش بخیر ،ایک ڈاکٹر عاصم حسین ہوا کرتے ہیں جنہیں 26اگست 2015ء کو کلفٹن میںان کے دفتر سے اٹھایا گیا اور پھر 19ماہ تک مختلف ادارے انہیں گیند کی طرح ایک دوسرے کی طرف اچھالتے رہے۔دہشتگردوں کی مالی معاونت سے شروع ہوئی بات عدالت پہنچتے پہنچتے دہشتگردوں کے علاج تک محدود ہوگئی ۔کرپشن کی کہانیاں بیان ہونے لگیں تو کسی نے کہا انہیں پی ایس او سے ہر روز 2ارب روپے کا کمیشن وصول ہوتا تھا جب کسی نے توجہ دلائی کہ یہ کتنی بڑی رقم ہے توبات تصحیح کے بعد 20کروڑ پر آگئی۔480ارب کی کرپشن کے الزامات لگے ،اعترافی بیان کی کہانیاں زبان زدِ عام ہوئیں لیکن آج تین سال بعد بھی ڈور کا کوئی سرا دکھائی دے رہا ہے نہ کوئی حل سجھائی دے رہا ہے۔اس لئےیہ سوچ کر دل ڈوبنے لگتا ہے کہ کیا کبھی ہم اس خیال و تصوراتی کرپشن کے آگے بند باندھنے میں کامیاب ہوں گے؟