THE LONG SHOT

December 11, 2012

امریکی ہفت روزہ ”ٹائم“ کی عمران خان کی تصویر سے سجی ٹائٹل سٹوری کا عنوان خوب ہے THE LONG SHOT۔ آرین بیکر سوال کرتا ہے کہ کیا کرکٹ لیجنڈ عمران خان پاکستان کا اگلا وزیراعظم بن سکتا ہے؟ عمران خان کا جواب ہاں میں ہے۔ ”جب دنیا میں کوئی نہیں مانتا تھا کہ 1992ء میں پاکستانی کرکٹ ٹیم ورلڈ کپ جیت سکتی ہے، جب دنیا بھر کے ڈاکٹر شوکت خانم ہسپتال پراجیکٹ کو ناممکن، دیوانے کا خواب قرار دیتے تھے، میں نے یہ کر دکھایا، اب بھی سوال صرف یہ ہے کہ تحریک انصاف سادہ اکثریت سے جیتے گی یا دو تہائی اکثریت سے؟“
میرا مسئلہ ہرگز یہ نہیں کہ عمران خان سادہ اکثریت سے جیتیں یا دو تہائی اکثریت حاصل کرکے اپنے مخالفین کو سرپرائز دیں۔ قوم میاں نواز شریف کے سر پر کامیابی کا تاج سجائے جی بسم اللہ! ہاں مجھے وحشت اس بات سے ہے کہ اگر ہم احتساب اور تبدیلی کے لفظ سے یوں ہی بدکتے رہے۔ طاقت ور مافیاز کمزور سیاسی حکومتوں اور ان کی تابع فرمان ریاستی مشینری کی بے حسی، بے بسی، کم عقلی، عاقبت نااندیشی اور موقع پرستی و مصلحت پسندی کا فائدہ اٹھا کر یوں ہی معاشرے کو یرغمال بناتے رہے تو ملک کا مستقبل کیا ہوگا؟ اور ہم کس قسم کا پاکستان اگلی نسل کو منتقل کریں گے۔؟
کہنے کو پاکستان میں اس وقت جمہور کا راج ہے، منتخب پارلیمنٹ، وفاقی و صوبائی حکومتیں اور ان کے احکامات کی بجاآوری میں مصروف ریاستی ادارے فوج، پولیس، انتظامیہ اور رینجرز وغیرہ وغیرہ مگر کوئی ذی شعور، دیانتدار اور سیاسی تعصب سے پاک شخص سینے پر ہاتھ رکھ کر یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ ملک میں انہی کا حکم چلتا ہے؟ بلوچستان میں غیر بلوچی ان کے طفیل سکھ چین کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ کراچی میں بھتہ خور، قبضہ گروپ، منشیات فروش، مختلف سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز ان کی مانتے اور سنتے ہیں؟۔ کوئی حکمران فوج، رینجرز اور پولیس کی سکیورٹی کے بغیر گھر سے نکل کر دفتر جا سکتا ہے؟۔
پنجاب میں شوگر مافیا، سی این جی مافیا، لینڈ مافیا، ٹرانسپورٹ مافیا، ذخیرہ اندوز مافیا، گرانفروش مافیا، جعلی ادویہ ساز مافیا کے سامنے حکومت کی دال گلتی اور حکومتی و عدالتی احکامات کی پذیرائی ہوتی ہے؟ حالانکہ پنجاب وہ واحد صوبہ ہے جہاں ریاست کا وجود نظر آتا ہے اور انتھک وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف اپنے احکامات پر عملدرآمد کے لئے بے چین رہتے ہیں مگر کیا عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر سی این جی مافیا نے ایک دن عمل کیا؟ جعلی ادویات کا قلع قمع ہوا؟ اور لینڈ مافیا اپنی حرکتوں سے باز آیا؟ خیبرپختونخوا کا حال جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے۔
یہ طاقتور مافیاز اس قدر طاقتور کیوں ہیں اور طاقت کے سرچشمہ عوام کے ووٹوں سے منتخب حکمران اتنے زیادہ کمزور، بے بس بلکہ بھیگی بلی بنے کیوں نظر آتے ہیں؟ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی، چور اور چوکیدار آپس میں مل چکے ہیں نہ حکمران کمزور ہیں نہ مافیاز طاقتور، اصل میں دونوں ایک ہیں کسی بھی مافیا کا کچا چٹھا کھولیں تو حکمران اور ڈان ایک ہی سکے کے دو رخ نظر آئیں گے۔ مستثنیات بہرحال ہر جا موجود، حکمران اور ڈان اگر ایک خاندان یا گروہ سے تعلق رکھتے ہوں اور اسٹیبلشمنٹ ان کی پشتبان ہو تو کون کس کا احتساب کرے، وہی قانون ساز، وہی قانون شکن اور وہی قانون کا محافظ، بھلا کون کس کی گرفت کرے اور کیوں؟
تو کیا پاکستان کے عوام اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیں، کیا اسے جمہوریت کا حسن اور سیاست کا روایتی کھیل قرار دینے والے موقع پرستوں کی بات مان کر ہر شہر کو کراچی اور ہر صوبے کو بلوچستان میں تبدیل ہونے کا انتظار کریں جہاں نہ تو ’کسی کی جان محفوظ ہو نہ عزت و آبرو‘ کاروبار اور مال مویشی؟ یا تبدیلی کی خواہش اور احتساب کے نعرے کو عزم مصمم میں بدل کر ہر طرح کی آلائشات سے پاک نوجوان نسل کو قیادت کے انتخاب کا موقع دیں اور میری نسل کے علاوہ میرے بزرگ نوجوانوں کے فیصلے پر اعتماد کریں۔ جن کا حسن انتخاب بہرحال وہ شعبدے باز اور شاطر نہیں ہو سکتے جن کی چشم پوشی، ملی بھگت اور سرپرستی کی وجہ سے یہ مافیاز پروان چڑھے، طاقتور ہوئے اور اب ہماری قومی زندگی، آزادی، سلامتی کے لئے مستقل روگ بن گئے ہیں۔
گھسٹی پٹی، آزمودہ، مصلحت پسند و موقع پرست موروثی و خاندانی قیادت کے بجائے ہمیں اب انہیں آزمانا چاہئے جو واشنگٹن کی خوشنودی سے اقتدار کے طلبگار نہیں، جن کے ڈیرے ڈان نہیں چلاتے، کاروبار بیرون ملک نہیں پھیلے اور سزا یافتہ نہیں، کمزور حکمرانوں اور طاقتور مافیاز نے ایک نیوکلیئر اسلامی ریاست کو پستی، ناکامی اور رسوائی کی جن اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیا ہے ان سے نکلنے کے لئے واقعی لانگ شاٹ کی ضرورت ہے۔ میاں داد کا مشہور زمانہ چھکا جو ہار کے خطرے سے دو چار میچ میں ایک دم دو وکٹیں گرا کر اپنی فتح و کامرانی کے جھنڈے گاڑ دے، کمزور حکمرانوں اور طاقتور مافیاز کو ایک ساتھ آؤٹ کر دے۔ کینسر کا علاج سرجری ہے۔ ہومیو پیتھی کی میٹھی گولیاں نہیں جو ان دنوں بعض آزمودہ عطائی قوم کو کھلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔