سندھ کی بے یار و مددگار فوڈ اتھارٹی

November 12, 2018

سندھ میں فود اتھارٹی کے قیام کو دوسال بیت گئے،لیکن فوڈ اتھارٹی کے پاس کھانے کے معیار کو چیک کرنے کے لیے کوئی لیباٹرری ہے نہ ہی مکمل عملہ۔

جیو نیوز کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ رات کراچی کے علاقے زمزمہ میں زہر خورانی کے باعث دو بچوں کی ہلاکت کے بعد سندھ فوڈ اتھارٹی نے فوری اجلاس طلب کیا اور اس کی کارکردگی پر وزیر خوراک کو بریفنگ دی گئی۔

سندھ فوڈ اتھارٹی کا قیام 2017 میں عمل میں آیا، اس وقت فوڈ اتھارٹی کے سربراہ وزیر خواراک ہری رام کشوری ہیں۔

فوڈ اتھارٹی صوبے بھر میں فروخت ہونے والی اشیا خورونوش اور ریسٹورنٹ سمیت ڈھابوں میں بکنے والے کھانے کے معیار کو چیک کرنے کی پابند ہے۔

اپریل 2017 سے تاحال سندھ فوڈ اتھارٹی نے صرف کراچی میں ہی چھاپے مارے حالانکہ فوڈ اتھارٹی کا دائرہ کار پورے سندھ تک ہے جبکہ فوڈ کا معیار جانچنے کے لیے کوئی لیباٹرری موجود ہی نہیں ہے۔

سندھ فوڈ اتھارٹی پہلے مرحلے میں نوٹس جاری کرتی ہے، پھر چھاپے مارے جاتے ہیں اور اس کے بعد ریسٹورنٹ یا کہیں بھی کھانے کی معیاری چیزوں کی فروخت نہ ہو نے پر اسے سیل کردیا جاتا ہے۔

سندھ فوڈ اتھارٹی کے پاس عملے کی کمی کے باعث تاحال ہوٹلوں اور ٹھیلوں کی رجسٹریشن کا باقاعدہ نظام موجود نہیں ہے۔

اتھارٹی میں اس وقت کام کرنے والے لوگوں کی تعداد 10 ہے جس میں دو محکمہ صحت کے افسران، جامعہ کراچی کے فوڈ اینڈ سائنس ڈپارٹمنٹ کے استاد اور ایک کے ایم سی افسر شامل ہے جبکہ کنٹریکٹ پر جامعہ کراچی کے فوڈ اینڈ سائنس کے کچھ طالب علموں سے چھاپوں کے دوران خدمات لی جاتی ہیں۔

البتہ حکومت سندھ نے فوڈ اتھارٹی کے لیے 50 کروڑ روپے کے فنڈز 5 ماہ قبل جاری کردیئے تھے۔