گھریلو تشدد سے خواتین کا بچائو

November 15, 2018

ہر مذہب، ہر ریاست میں پرتشدد رویوں کی حوصلہ شکنی کے لئے قوانین بنائے جاتے ہیں پھر بھی ایک انسان کا دوسرے کمزور انسان پر ظلم ڈھانا پوری دنیا میں عام ہے۔ پرتشدد واقعات کو منظر عام پر بھی لایا جاتا ہے اس کی بیخ کنی کے لئے آواز بھی اٹھائی جاتی ہے پھر بھی پاکستان سمیت پوری دنیا کے انسانوں میں یہ ظالمانہ رویے موجود ہیں خصوصاً خواتین پر گھریلو تشدد ایک عام سی بات سمجھی جاتی ہے۔ خواتین کو تشدد کا نشانہ بنانے والے پڑھے لکھے، ان پڑھ اور غریب امیرکسی بھی طبقے کے لوگ ہو سکتے ہیں۔ اکثر تشدد کے واقعات میں خواتین کو زندہ جلا دیا جاتا ہے یا پھر تیزاب گردی کی نذر کیا جاتا ہے ۔خواتین کو تحفظ دینے اور انصاف دلوانے کے لئے ہمارے ملک میں قوانین موجود ہیں مگر ان پر یا تو عمل نہیں ہوتا یا ان میں ترامیم کی ضرورت ہے تاکہ ہر مظلوم خاتون کی داد رسی ہو سکے ۔معاشرتی دبائو کی وجہ سےبھی خواتین خاموش رہتی ہیں۔ ملک میں پہلی دفعہ خیبر پختونخوا کی حکومت نے خواتین پر گھریلو تشدد کی روک تھام کے لئے قانون کا مسودہ تیارکیا ہے، صوبائی کابینہ اس حوالے سے ایک بل کی پہلے ہی منظوری دے چکی ہے۔ نئے قانون کے مطابق بیوی پرتشدد ثابت ہونے کی صورت میں شوہر کو نہ صرف 30ہزار روپے جرمانہ دینا پڑے گا بلکہ تین ماہ جیل کی ہوا بھی کھانا پڑے گی۔ اگر تشدد کا الزام جھوٹا ثابت ہوا تو بیوی بھی50ہزار روپے جرمانہ دے گی۔ ڈپٹی کمشنرز کی سربراہی میں کمیٹیاں تشکیل دی جائیں گی جو متاثرہ خاتون کو طبی امداد، تحفظ اور قانونی معاونت فراہم کریں گی۔ محکمہ صحت ،سماجی بہبود، پبلک پراسیکیوٹر، پولیس افسران کمیٹی میں شامل ہوں گے ۔ بلا شبہ خیبر پختونخوا حکومت کا یہ ایک مستحسن اقدام ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کے دیگر صوبوں میں بھی اسی نوعیت کا قانون اسمبلیوں سے منظور کرایا جائے تاکہ خواتین جو ہمارے ملک کی نصف سے زائد آبادی پر مشتمل ہیں، کو فوری انصاف تحفظ اور جینے کا حق مل سکے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998