غلامی اور بادشاہی

November 23, 2018

جذب کی دنیا ایک لامتناعی سمندر کی مانند ہوتی ہے جس کا دوسرا کنارہ شاید ہوتا ہی نہیں۔ جذب کی دنیا ایک ایسی کائنات ہے جو سارے عالم پر محیط ہوتی ہے اور مجذوب اس دنیا، کائنات اور جہاں کا بے تاج بادشاہ ہوتا ہے۔ وہ اپنے من کے پیالے میں سارے جہاں کو دیکھتا ہے۔ اس کی نگاہ دنیا کے جس بھی حصے کی طرف رخ کرتی ہے وہ بے نقاب ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس پر کائنات کے اسرار و رموز کھلتے چلے جاتے ہیں۔ وہ اپنی مختصر سی جگہ پر بیٹھا ساری دنیا کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اسے اس قدر طاقت اور اپنے حال پر غلبہ دیا ہوتا ہے کہ وہ سب کچھ اپنے اندر جذب کئے رکھتا ہے۔ اسرار و رموز کا پیالہ صرف اس وقت چھلکتا ہے اور ایک آدھ قطرہ صرف اس وقت باہر نکل کر ظاہر کی صورت اختیار کرتا یا اظہار پاتا ہے جب یہ رضائے الٰہی ہوتی ہے۔ اسی جذب کی بے انتہا قوت کے سبب اسے مجذوب کا نام دیا جاتا ہے کیونکہ کائنات کے کناروں تک پھیلے اسرار و رموز کو دیکھ کر جذب کرنا تقریباً ناممکن کام ہے لیکن مجذوب اس ناممکن کام کو اللہ پاک کی عطا کردہ قوت سے سرانجام دیتا ہے۔ وہ اپنی جگہ پر بیٹھا گردُوں کی سیر کرتا، آسمانوں اور زمین کو دیکھتا، سمندروں میں غوطے لگاتا اور فضائوں میں اڑتا پھرتا ہے لیکن اس کےپاس بیٹھے شخص پر یہ کیفیت ظاہر ہوتی ہے نہ اسے اس کیفیت کا پتہ چلتاہے۔ اتنا بڑا ظرف صرف مجذوب کو ہی عطا ہوتا ہے۔ وہ بولتا بھی رب کی رضا سے ہے اور چلتا بھی اسی کی مرضی سے ہے۔ جذب کے مقام کی راہ میں ایک منزل ایسی بھی آتی ہے جب مجذوب کی ہر حرکت، کام، عمل، سونا، جاگنا، کھانا حکم، رضائے الٰہی کے تابع ہوتا ہے۔ ان منازل کو طے کرنےکے بعد جب مجذوب کو اپنے باطن پر مکمل اختیار حاصل ہو جاتا ہے تو اسے خاصی حد تک آزادی مل جاتی ہے اگرچہ یہ آزادی بھی پابہ گل ہوتی ہے کیونکہ مجذوب نہ یہ آزادی مانگتا ہے اور نہ چاہتا ہے۔ وہ رضائے الٰہی کی مکمل اطاعت کا اس قدر عادی ہو جاتا ہے کہ اگر چاہے بھی تو اس غلامی کی زنجیر ڈھیلی اور نرم نہیں کرسکتا۔ جو چیز روح اور جسم کا حصہ بن جائے اس سے جدائی برداشت نہیں ہوتی۔

سبحان اللہ۔ میں نے مجذوبیت کے عجیب و غریب اور انوکھے رنگ دیکھے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے مجذوب جس طرف نگاہ ڈالتا ہے اس طرف کی ساری حقیقتیں قطار اندر قطار بے نقاب ہو جاتی ہیں اور جب وہ ظاہر کی آنکھ بند کرکے باطن کی آنکھ سے دیکھتا ہے تو اس کی نگاہ کا نور سارے عالم پہ چھا جاتا ہے۔ اللہ پاک مجذوب کو اپنی سلطنت کا بے تاج بادشاہ بنا کر اتنا اختیار عطا کردیتے ہیں کہ وہ جسے چاہتا ہے وہ قریب آتا ہے اور جسے نہیں چاہتا وہ پوری کوشش کے باوجود قرب کی طرف قدم نہیں اٹھا سکتا۔ کبھی کبھی نافرمانی پر مجذوب کی آنکھ میں شعلے بھڑکنے لگتے ہیں اور محسوس ہوتا ہے جیسے نافرمان جل کر راکھ ہو جائے گا لیکن مجذوب کو اپنے حال پر اتنا اختیار ہوتا ہے کہ وہ کسی کو نہ نقصان پہنچاتا نہ ہی کوئی سزا دیتا ہے۔ اس بے ضرر، مسکین، بظاہر غربت و افلاس کے لباس میں ملبوس شخص کو اللہ پاک اتنا رعب اور دبدبہ عطا فرما دیتے ہیں کہ انسان تو انسان میں نے بے زبانوں کو بھی ان کے حکم کی تعمیل کرتے دیکھا ہے۔ یہ عطا ، عطائے ربی ہوتی ہے نہ کہ اپنے کسب و کمال کا کمال۔ جو خوش ہو کر عطا فرماتا ہے اسے وہ ناخوش ہوکر محروم بھی کرسکتا ہے۔ وہ قادر مطلق ہے وہاں کس کی کیا مجال۔وہ جب راضی ہوتا ہے تو راکھ و خاک میں لپٹے انسان کو بادشاہت اور سلطنت عطا کردیتا ہے۔ اس سلطنت کے حصول کےلئے نہ جنگ کرنا پڑتی ہے نہ فوجیں پالنا پڑتی ہیں اور نہ ہی انسانوں کا خون بہانا پڑتا ہے۔ پھر یہ بادشاہت ایسی بادشاہت ہوتی ہے جس کے سامنے دنیا کی بادشاہت محض مشت غبار اور مٹی کی ڈھیری لگتی ہے۔ بادشاۂ وقت بھی آتا ہے تو اپنی تمام تر قوت اور شان و شوکت کے باوجود ہاتھ باندھے کھڑا رہتا ہے۔ سبحان اللہ کس قدر قابل رشک اور اعلیٰ مقام ہے کہ دنیا کی نظروں میں ایک غریب انسان امراء سے بھی زیادہ امیر ہوتا ہے اور ہر شخص ، بادشاہ سے لے کر عام انسانوں تک اس کے دربار میں حاجت روائی کے لئے آتا ہے جبکہ وہ دنیا اور دنیا والوں سے بےنیاز فرش پر بوریا بچھائے بیٹھا رہتا ہے۔ یہ ہے معمولی سا انعام اپنے مالک حقیقی کی غلامی اور چاکری کا۔ اس کی غلامی،دنیا کی غلامی سے بے نیاز کردیتی ہے اور اس کی چاکری دنیا کی چاکری سے آزاد کردیتی ہے۔ جب انسان توکل کاملہ کو خلوص نیت سے اپنا لے اور خود کواپنے خالق کے سپرد کردے تو پھر وہ دنیا کا غلام نہیں رہتا بلکہ دنیا اس کی غلام بن جاتی ہے۔ جذب ومستی کی کائنات سے انسان کو اتنا روحانی لطف اور اس قدر خوشی حاصل ہوتی ہے جس کے سامنے دنیا کی ہر لذت ہیچ اور کم تر ہوتی ہے۔ فقیری میں بادشاہی مجذوب کا اصل مقام ہوتا ہے اور جنہیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ یہ مقام عطا کرتے ہیں ان کے لئے دنیا اس طرح مسخر کردیتے ہیں کہ وہ چند لمحوں میں جہاں چاہیں پہنچ جاتے ہیں یعنی ان کے لئے مادی فاصلے سمٹ جاتے ہیں، سمندر راستے دیتے اور پہاڑ راستے سے ہٹ جاتے ہیں اور وہ فرش پہ بیٹھا آسمانوں کی سیر کرتا ہے۔ عشق الٰہی اور عشق رسولؐ کی راہ میں خود کو مٹا کر یہ جذب اور یہ بادشاہی ملتی ہے۔ خود کو مٹانا نہایت مشکل مقام ہے اور شاید یہ فیصلے بھی ازل سے ہی طے تھے۔