چومکھی جنگ اور دہشت گردی کی دلدل

November 25, 2018

چومکھی جنگ (Hybrid War) کے زمانے میں دہشت گرد پھر سے حملہ آور ہوئے ہیں اور بیک وقت ملک کے جنوب و شمال میں لیکن دونوں واقعات کے پیچھے محرکات و مقاصد مختلف اور قوتیں متفرق تال میل کے ساتھ ایک ہی لگتی ہیں۔ کراچی میں چینی قونصل خانے پہ حملہ آور بظاہر چینی سفارت کاروں اور قونصل خانے کو یرغمال بنانے کے لیے داخل ہوئے تھے کہ اے ایس پی آنسہ سوہائے عزیز تالپور کی جواں ہمت قیادت میں پولیس فورس کی بروقت مداخلت نے یہ کوشش ناکام بنا دی۔ بلوچ سرم چاریوں کے بی ایل اے کے ایک دھڑے نے اِس حملہ کی ذمہ داری بھی قبول کر لی۔ اِسی ماہ اخباری اطلاعات کے مطابق تین بلوچ مسلح گروپوں (بی ایل ایف، بی ایل اے اور بی آر جی) کے انضمام سے ایک مشترکہ کمانڈ راجی آجوئی سنگر (BRAS) کا اعلان کیا گیا تھا۔ یہ حملہ ایسے وقت میں ہوا جب وزیراعظم عمران خان کے چین کے دورے کے بعد سی پیک کے حوالے سے نہ صرف یہ کہ خود پیدا کردہ کنفیوژن چھٹا تھا، بلکہ اس عظیم الشان منصوبے میں مزید شعبوں کے اضافے سے اس میں سماجی و انسانی ترقی کی توانائی بھی شامل کی گئی تھی۔ اور آئندہ ہفتے کراچی میں افواجِ پاکستان ایک عالمی حربی نمائش کا اہتمام کرنے والی تھیں، جس میں بیرونِ ملک سے سینکڑوں اہم مہمان شریک ہونے والے تھے۔ یوں لگتا ہے کہ سی پیک کے خلاف متحرک بیرونی قوتیں اب بلوچ بیگانگی اور مزاحمت کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔ دوسری جانب اُسی روز (گزشتہ جمعہ) لوئر اورکزئی کے جمعہ بازار میں دہشت گردی کے ہاتھوں 35 سے زیادہ افراد لقمۂ اجل بنے۔ فرقہ وارانہ دہشت گردی کا یہ مظہر ہمیں فقط اورکزئی و دیگر علاقوں میں ہی نہیں، افغانستان و پاکستان کے ہزارہ قبائل، یمن، عراق اور شام میں بھی نظر آتا ہے۔ امریکہ کی ایران کے خلاف پابندیوں اور خطے میں خلیجی و ایرانی چپقلش کے طفیل مشرق وسطیٰ میں جاری فرقہ وارانہ جنگ جو پہلے سے ہی یہاں جاری و ساری تھی اُس میں مزید شدت آئے گی۔ کچھ ہفتے قبل ایرانی پاسداران کا اغوا ہوا اور پاکستان اور ایران کی مشترکہ کوششوں سے اُنہیں بازیاب کر لیا گیا تھا۔ ابھی دہشت کے اِن دو واقعات پہ نظریں جمی تھیں کہ 25نومبر کو لبیک یا رسول اللہ نے فیض آباد دھرنے میں جان قربان کر دینے والوں کی یاد میں مظاہروں کا اعلان کر دیا اور تادمِ تحریر اُن کے خلاف کارروائی جاری ہے۔ آئندہ ہفتے جنیوا میں افغانستان میں سیاسی حل کی تلاش میں ایک کانفرنس منعقد ہو رہی ہے جس میں افغان طالبان سمیت تمام عالمی و علاقائی قوتیں بھی شریک ہو رہی ہیں۔ گزشتہ ہفتے ہی امریکی سفیر خلیل زاد اور طالبان کے درمیان قطر میں مذاکرات کا ایک اور دور ہوا اور خلیل زاد نے کابل میں یہ عندیہ دیا تھا کہ اگلے صدارتی انتخابات (اپریل 2019) سے پہلے اُنہیں کسی سیاسی حل کی اُمید ہے جسے افغان طالبان نے درخورِ اعتنا نہیں سمجھا۔ ایسے میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے انتباہ کیا ہے کہ کچھ عناصر ملک کو تصادم کی طرف لے جا رہے ہیں اور ریاست میں مذہب اور لسانیت کی بنیاد پر انتشار پھیلنے نہیں دیں گے۔ جنرل باجوہ کا انتباہ بروقت ہے اور قابلِ غور بھی۔ ابھی دہشت گردی کا عفریت ہر جانب بکھرا ہوا ہے اور اس کے نظریاتی، مالیاتی اور مددگار سُوتے بدستور متحرک اور توانا ہیں۔ اوپر سے پاکستان خطے میں جاری چومکھی جنگوں اور پراکسی لڑائیوں میں متحارب قوتوں سے پنجہ آزما ہے۔ چار دہائیوں سے پاکستان دہشت کی اس چومکھی جنگ کی دلدل میں ایسا پھنسا ہے کہ نکلنے کی راہ سجھائی دیتی بھی ہے تو راہِ نجات کے باوجود یہ جنگ ختم ہونا تو درکنار نت نئے محاذوں تک پھیلتی جا رہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے صدر ٹرمپ کے ٹویٹر پر مخاصمانہ بیان کا ترکی بہ ترکی جواب دے کر پاکستانی رائے عامہ کی بھرپور نمائندگی تو کی، لیکن اُن کو یاد ہوگا کہ وہ 75 ہزار جانوں کے زیاں، قابلِ فخر سپاہیوں اور افسروں کی قربانیوں اور اربوں ڈالرز کے نقصان بارے سوال اُٹھاتے رہے تھے کہ آخر ہم دوسروں کی اس جہنمی آگ میں کودے کیوں تھے۔ انہیں یہ بھی یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ آرمی پبلک اسکول پہ خون آشام حملے کے بعد انہیں دھرنا ترک کر کے ایک قومی اتفاقِ رائے کے نیشنل ایکشن پلان پہ دستخط کرنے کی توفیق بھی ہوئی تھی جو اب ایک اور ٹاسک فورس کی نذر تو کیا گیا ہے، اُس پر عملدرآمد کی حربی میدان کے سوا کہیں عمل داری نظر نہیں آتی۔ ابھی تک تو یہ بھی طے نہیں ہو پا رہا کہ ہمارے دوست کون ہیں اور دشمن کون؟ کس سے لڑائی بنتی ہے اور جن سے بنتی ہے اُن سے کتنی اور کیسے لڑنی ہے یا ٹال دینی ہے اور جو لڑائی بنتی نہیں اُسے اپنے سر مول کیوں لینا ہے؟

کچھ عرصے سے ہم مخلوط النسل یا چومکھی جنگ اور پانچویں پیڑھی کی جنگ کا بہت ذکر سنتے ہیں جیسے جنگ میں ہر حربہ کبھی جائز نہ تھا۔ ہم کیوں بھول رہے ہیں کہ سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں اس جنگی صنف کو مردِ مومن ضیاء الحق نے کیسے کیسے استعمال کیا اور وہ بھی امریکی سرپرستی میں۔ اور یہ بھولتے ہوئے کہ جن مجاہدین اور طالبان کی نظریاتی افواج کو پروان چڑھایا گیا تھا وہ کل کو پلٹ کر ہمارا نشیمن بھی جلا سکتی ہیں۔ اس وقت سے پاکستان کی نظریاتی کایہ پلٹ دی گئی تھی اور ہر سُو انتہا پسند رسائل کی یلغار، نصابِ تعلیم کے متعصب ایڈیشنز، مجاہدین کی پلٹنیں اور مذہبی انتہاپسندی و فرقہ پرستی کو دن رات فروغ دیا گیا۔ مختلف اداروں کی جگہ ٹوڈی اسمبلیاں تشکیل دی گئیں۔ مقامی حکومتوں کو طرح طرح کے قبضہ گیروں،رسہ گیروں اور پراپرٹی ڈیلروں سے بھر دیا گیا تھا، جمہوریت پسند جیلوں اور عقوبت خانوں میں بھر دیئے گئے تھے، میڈیا پر خوفناک سنسرشپ عائد کر دی گئی تھی، حق پرست صحافی، اساتذہ اور دانشور نوکریوں سے فارغ کر دیئے گئے تھے، عدلیہ ربڑ اسٹمپ بن گئی تھی اور جمہوری سیاسی جماعتیں سیاست سے باہر کر دی گئی تھیں۔ اب یوں لگتا ہے کہ اس کا ایک ترمیم شدہ ضمنی ایڈیشن پھر سے مارکیٹ میں آ گیا ہے۔ اب خیر سے یاد آئی بھی ہے تو مغربی حربی ماہرین (جیسے کلازوِٹ) کی جنگوں میں کامرانیوں کے برعکس قدیم عظیم چینی حکمت کار سن زو کی جنگ میں جنگ کیے بغیر جنگ جیتنے کی حکمتِ عملی۔ لیکن اصل سوال جو ہمارے حکمت کے ماہرین آسانی سے بھول جاتے ہیں کہ اس کا استعمال کس کے خلاف؟ ہمارے ملک میں بار بار اپنے ہی عوام اور اپنے ہی روشن دماغوں کے خلاف اس حکمتِ عملی کا استعمال تو ہم دیکھتے آئے ہیں، ازلی دشمنوں کے خلاف نہیں۔ گزشتہ انتخابات سے میڈیا پر لگی قدغنوں اور جمہوری عناصر کی بیخ کنی میں ہم پھر سے اس کا مزہ چکھ رہے ہیں۔ ماضی بعید میں اس جدید نوآبادیاتی مائنڈ سیٹ کا یہ نتیجہ نکلا کہ اس حکمتِ عملی کے اپنے ہی عوام کے خلاف استعمال سے جو دراڑیں اور دوریاں پیدا ہوئی تھیں انہیں دشمن نے مملکتِ خداداد کے خلاف استعمال کیا۔ بھارت کی جارحیت سے مشرقی پاکستان بالآخر بنگلہ دیش بنا تو بنگالی عوام کو کس نے اس حد تک بیگانہ کیا کہ وہ یحییٰ خان کی فوج کشی کے خلاف بغاوت پر آمادہ ہو گئے۔ بدقسمتی سے یہ سلسلہ ختم ہونے کو نہیں۔ نئے پاکستان تک پہنچتے پہنچتے جمہوری عبور اور جمہوری تحریک کا اسقاط ہوا، بایاں بازو منتشر اور روشن خیالی عنقا ہوئی، مذہبی انتہاپسندی حاوی اور فرقہ پرستی عام ہوئی، شہری معاشرہ مسلح ملیشیاز کا یرغمال بنا، حکومت کاسۂ لیس اور آمرانہ ڈھانچہ حاوی ہوا۔ کیا اس زوال سے دشمن فائدہ اُٹھائے گا یا ہماری چومکھی جنگ کی چومکھیوں میں اضافہ ہوگا۔ بس! التجا ہے کہ ذرا غور کیجیے۔ ایسے میں سن زو کی حکمت عملی کی اگر کوئی اچھی مثال قائم ہوئی بھی ہے تو وہ جنرل باجوہ کا وہ ترپ کا پتہ ہے جو اُنہوں نے عمران خان کی حلف برداری کی تقریب میں کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو کے ذریعے بھارت کی جانب پھینکا تھا اور یہ پیشکش کی تھی کہ بابا گرونانک کے پانچ سو پچاسویں جنم دن کی تقریبات کے لیے سکھ یاتریوں کے لیے پاکستان ڈیرہ بابانانک سے کرتارپور تک کاریڈار کھولنے کو تیار ہے۔ آپ نے دیکھا کہ ہندتوا کی حکومت کس طرح رام ہوئی۔ اسے کہتے ہیں حکمت!