ترقی پذیر ممالک میں ’جدید شہروں‘ کا تصور

December 09, 2018

افریقا میں سینیگال کے بندرگارہ والے شہر ڈاکار سے لے کر پاکستان کے سب سے بڑے بندرگاہ والے شہر کراچی تک، ٹیکنالوجی کا ہر طرف زور ہے۔ چاہے آپ کو اپنے گھر یا دفتر میں بیٹھے سواری بک کرنی ہو یا کافی آرڈر کرنی ہو، اسمارٹ فون اور ایپس آپ کو جگہ جگہ نظر آئیں گے۔آپ دنیا کے کم آمدنی والے شہروں پر نظر دوڑائیں، آپ کو اندازہ ہوگا کہ وہاں کے باشندے سیلیکون ویلی کی ٹیکنالوجی کمپنیوں کو اس طرح لیتے ہیں جیسے وہ امریکی نہیں بلکہ ان کی مقامی کمپنیاں ہوں۔ خیر یہ تو ہوگئی صارف کے نقطۂ نظر کی بات۔

حقیقت یہ ہے کہ کئی بین الاقوامی ٹیکنالوجی کمپنیوں کو ’گلوبل ساؤتھ‘ میں رہنے والے اپنے کم آمدنی والے صارفین کی اتنی فکر نہیں۔ کیونکہ یہ کمپنیاں کم آمدنی والے ملکوں (یا ان کے بڑے شہروں) میں بنیادی طور پر اشرافیہ کی ضروریات کو پورا کرتی ہیں، جبکہ وہاں رہائش پذیر افراد، جن کی اکثریت غریب طبقہ پر مشتمل ہے، ابھی تک تحفظ اور نکاسی آب جیسی بنیادی سہولیات کے لیے ترس رہی ہے۔

اسمارٹسٹی ٹیکنالوجیز، کم اور متوسط آمدنی والےشہروں کو درپیش مسائل پر توجہ کیوں نہیں دیتیں؟ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ جس میں سے ایک وجہ تو یہ ہے کہ فرسٹ جنریشن اسمارٹ سٹی ٹیکنالوجیز کی توجہ ترقی یافتہ معیشتوں کے دولت مند شہروں پر مرکوز تھی۔ امریکا کی ابتدائی دو ٹیکنالوجی کمپنیوں آئی بی ایم اور سِسکو کی توجہ کا مرکز شمالی امریکا اور یورپ رہے، جس کے بعد ہی وہ مشرقی اور جنوب مشرقی ایشیا کے اُبھرتے ہوئے شہری مراکز کی طرف آئے۔

خوش قسمتی سے، حالیہ دور میں اُبھرتے ہوئے ملکوں جیسے چین، بھارت اور سنگاپور میں اسمارٹ سٹی ٹیکنالوجیز پر نسبتاً تیزی سے کام ہورہا ہے، جس کی دو وجوہات ہیں۔ اول، ترقی یافتہ ملکوں کے دولت مند شہروں میں ترقی کی رفتار سست پڑرہی ہے، جبکہ وہاںاسمارٹ سٹی ٹیکنالوجیز کافی سرایت بھی کرچکی ہیں۔ دوئم، ابھرتے ہوئے ملکوں میں اسمارٹ سٹی ٹیکنالوجیز کو اپنانے کے لیے وسائل، دولت اور استعداد کے ساتھ پختہ ارادہ ہے اور اسمارٹ سٹی ٹیکنالوجیز کے لیے میدان بالکل خالی ہے۔ترقی پذیر ممالک ٹیکنالوجی میں آنے والی جدت سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے پرعزم ہیں۔ ان ملکوں میں تخلیقی صلاحیتوں کے حامل افسران بھی ہیں، جو شہری مسائل حل کرنے کے لیے اسمارٹ سٹی ٹیکنالوجیز کا استعمال بڑھانا چاہتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ اس میں کوئی حیرانی نہیں ہونی چاہیے کہ اکانومسٹ اور میکنزی اینڈکمپنی جیسے بااثر ادارے نیویارک، لندن، پیرس، سنگاپور اور سیئول کو دنیا کے سب سے اسمارٹ شہروں میں شمار کرتے ہیں اور اسمارٹ سٹی ٹیکنالوجیز میں سرمایہ کاری کرنے والی کمپنیوں کی توجہ بھی دنیا کے گنے چنے 300سے 600 شہروں پر مرکوز رہتی ہے، جو عالمی معیشت کو چلا رہے ہیں۔

اسمارٹ سٹی ٹیکنالوجیز کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ انھیں ترقی یافتہ ملکوں کے دولت مند شہروں کو مدِ نظر رکھ کر تیار کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے ترقی پذیر معاشروں میں اکثر انھیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے، کیونکہ یہ ٹیکنالوجیز ان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مؤثر نہیں ہوتیں۔ اگر کم آمدنی والے بڑے شہروں کی بات کریں تو ان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ان اسمارٹ سٹی ٹیکنالوجیز کو خریدنے کی قوت کا نہ ہونا ہے۔ دوسرا اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ یہ ٹیکنالوجیز ان کم آمدنی والے شہروں کے زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر تیار نہیں کی جاتیں۔ نتیجتاً ہوتا یہ ہے کہ ان بڑے شہروں میں اسمارٹسٹی ٹیکنالوجیز سے ایک محدود تعلیم یافتہ اور مراعات یافتہ طبقہ ہی فائدہ اٹھاپاتا ہے اور اس کے بعد وہاں امیر اور غریب میں فرق مزید بڑھ جاتا ہے۔

بنیادی مسئلے کی بات کریں تو اسمارٹ سٹی ٹیکنالوجیز پر کام کرنے والی کمپنیوں کی توجہ ترقی یافتہ ملکوں کے دولت مند شہر وں پر ہونا، دنیا کے زیادہ سے زیادہ شہروں کو اسمارٹ سٹیز میں ترقی دینے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ٹیکنالوجی پر کام کرنے والے ماہرین ’ٹیکنالوجی سب کے لیے‘ کا نعرہ ضرور لگاتے ہیں لیکن ’تجارتی مفاد‘ کے باعث، ان کی پہلی توجہ اور ترجیح ہمیشہ وہی شہر رہتے ہیں، جہاں انھیں اپنی ٹیکنالوجی فروخت کرنے میں کوئی مشکل پیش نہ آئے اور جہاں اس کی آسمان سے باتیںکرتی قیمت پر کوئی سوال نہ اٹھایا جائے۔

تاہم، ٹیکنالوجی کے ماہرین کو بتدریج یہ احساس ہورہا ہے کہ انھیں اپنے تجارتی مفادات کو بڑھانے کے لیے ابھرتے ہوئے ملکوں اور ان کے بڑے شہروں پر توجہ دینا ہوگی، کیونکہ مستقبل ان ہی ابھرتے ہوئے شہروں میں ہے۔ اس کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ جہاں مسائل ہوتے ہیں، وہاں لوگ ’بہتری کے لیے تبدیلی‘ کو فوری قبول کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔

اعدادوشمار پر نظر ڈالیں تو 2050ء تک دنیا کی 90فیصد آبادی کا اضافہ افریقا، ایشیا اور لاطینی امریکا کے ان کم آمدنی والے حصوں میں ہوگا، جہاں اسمارٹسٹی ٹیکنالوجیز نے ابھی غالباً پہلا قدم بھی نہیں رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین سمجھتے ہیں کہ اسمارٹ سٹی ٹیکنالوجیز کے لیے مستقبل کی سب سے بڑی مارکیٹ ’گلوبل ساؤتھ‘ کے ان ہی حصوں میں بن رہی ہے، کیونکہ وہاں پیچیدہ شہری مسائل حل کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال ناگزیر ہے۔

ساتھ ہی یہ سوچ بھی پائی جاتی ہے کہ دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں ٹیکنالوجی تقریباً اپنی میچورٹی کو پہنچ چکی ہے، ایسے میں اپنے کاروبار کو نیا رُخ دینے کی غرض سے نئی سوچ اور نئے تصورات سے متعارف ہونے کے لیے انھیںابھرتے ہوئے شہروں کا رخ کرنا ہوگا۔ شہری ترقی کےماہرین وہاں پہلے سے ہی موجود ہیں۔ ’بس ریپڈ ٹرانسپورٹ‘ کی مثال لے لیں، غالباً ایک طویل عرصے میں شہری آمد و رفت کے مسائل حل کرنے کے لیے سامنے آنے والی یہ سب سے بڑی اور مؤثر جدت ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ بی آرٹی منصوبے کسی بھی لائٹریل ٹرانزٹ سسٹم کے مقابلے میں انتہائی کم لاگت میںتیار ہوتا ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک بی آر ٹی کو ’غریب لوگوں کا سب وے‘ کہا جاتا تھا، تاہم آج لاس اینجلس سے جکارتا تک، اسے مؤثر اور باعزت آمد ورفت کا بہترین ذریعہ مانا جاتا ہے اور ہر شہر کے میئر پر دباؤ ہوتا ہے کہ وہ اپنے شہر میں بی آرٹی سسٹم متعارف کرائے۔

ٹیکنالوجی کی اپنی حدود ہیں۔ غربت، عدم مساوات، کمزور ادارے اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار شہری انفرااسٹرکچر، ان مسئلوں سے صرف سینسرز اوراسمارٹ ایپس کے ذریعے نہیں نمٹا جاسکتا۔ تاہم اسمارٹ سٹی ٹیکنالوجیز کا استعمال تعمیرات،ریئل اسٹیٹ کاروبار اور آمد و رفت وغیرہ کے مسائل حل کرنے میں کلیدی کردار ضرور ادا کرسکتاہے۔