تعلیم پر کون کتنا خرچ کرتا ہے؟

December 09, 2018

شاید ہی کوئی شخص ایسا ہو، جو اس بات سے اتفاق نہ کرتا ہو کہ ایک پھلتا پھولتا تعلیمی نظام کسی بھی ملک کی ترقی میں سب سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔ ہرچندکہ، دنیا کے ہر ملک میں تعلیم کو انتہائی ترجیح دی جاتی ہے، تاہم جہاں تعلیم کے شعبہ میں خرچ کرنے یا سرمایہ کاری کی بات آتی ہے تو ہر ملک دوسرے سے مختلف نظر آتا ہے۔

آرگنائزیشن فار اِکنامک کوآپریشن اینڈ ڈیویلپ منٹ (OECD)کی تعلیم پر جاری ہونے والی رپورٹ2018ء میں تنظیم کے 36رکن ملکوں میں پیمائش کے مختلف معیارات کے ذریعے شعبہ تعلیم کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس میں ایک پیمانہ یہ بھی ہے کہ ہر ملک تعلیم کے شعبہ پر کتنا خرچ یا سرمایہ کاری کرتا ہے۔

سال 2015ء میں، او ای سی ڈی کے رکن ملکوں میں مجموعی قومی اخراجات میں تعلیم کا حصہ 11فیصد تھا۔ سب سے کم خرچ کرنے والا ملک یونان تھا، جہاں یہ شرح 6فیصد تھی۔ اوای سی ڈی کے 5ممالک ایسے ہیں جو تعلیم پر 15فیصد سے زیادہ خرچ کرتے ہیں، ان میں سے برازیل، چلی، میکسیکو اور نیوزی لینڈ 16فیصد سے 19فیصد ، جبکہ کوسٹا ریکا میں یہ شرح 30فیصد سے زائد ہے۔

اگر تعلیم پر اُٹھنے والے مجموعی اخراجات کو جی ڈی پی (مجموعی قومی پیداوار) کے تناسب میں دیکھا جائے تو صورتحال کچھ مختلف نظر آتی ہے۔ اوای سی ڈی ملکوں میں جی ڈی پی کے تناسب سے تعلیم کے مجموعی اخراجات کی اوسط شرح 4.5فیصد بنتی ہے۔ 7فیصد کی شرحکے ساتھ ناروے سرِفہرست ہے، جبکہ روس، جاپان اور جمہوریہ چیک 3فیصد کی شرح کے ساتھ سب سے پیچھے ہیں۔

ثانوی تعلیم (Secondary Education)کے بعد صرف 23فیصد کوسٹا ریکن طلباء گریجویشن یا اس سے اعلیٰتعلیم (Tertiary Education)حاصل کرپاتے ہیں۔ تاہم وہاں جو نوجوان گریجویشن اور اس سے زائد تعلیم حاصل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں، وہ اپنے دیگر ہمعصروں کے مقابلے میں قابلِ ذکر فائدے بھی حاصل کرتے ہیں۔ یہ 23فیصد کوسٹا ریکن، پیشہ ورانہ زندگی میں دیگر کے مقابلے میں (جو اعلیٰتعلیم حاصل نہیںکرپاتے) نہ صرف دُگنی تنخواہ حاصل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں، بلکہ ان میں بے روزگاری کی شرح بھی کم ہوتی ہے۔ 2007سے 2017کے درمیان ایسے تعلیم یافتہ کوسٹاریکن نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح میں 5فیصد سے زائد کمی دیکھی گئی ہے۔ اگر صنفی بنیاد پر جائزہ لیا جائے تو کوسٹاریکا میںتعلیم یافتہ خواتین کی تنخواہیں تعلیم یافتہ مردوں کے قریب ترین ہیں اور اوسطاً یہ فرق صرف 7فیصد ہے۔

اوای سی ڈی کے صرف ایک تہائی رکن ممالک، سرکاری تعلیمی اداروں میں بیچلر ڈگری حاصل کرنے والے طلباء سے ٹیوشن فیس وصول نہیںکرتے، تاہم تنظیم کے تین چوتھائی ملک طلباء سے ٹیوشن کی مد میں مجموعی اخراجات کا کچھ حصہ وصول کرتے ہیں۔ایک تہائی ملکوں میں سالانہ فیس 2,400ڈالر سے کم ہے، جبکہ کچھ ملکوں میں یہ فیس 8,000ڈالر سے تجاوز کرجاتی ہے۔تنظیم کے رکن ملکوں میں سب سے زیادہ فیس برطانیہ میں وصول کی جاتی ہے، جو تقریباً 12,000ڈالر بنتی ہے۔ البتہ،امریکا کے ایک تہائی مقامی طلباء نجی تعلیمی اداروں میںجاتے ہیں، جہاں ٹیوشن فیس برطانیہ سے بھی کچھ زیادہ ہوسکتی ہے۔

اب کئی لوگوںکے ذہن میں یہ سوال اُٹھ سکتا ہے کہ یہ ساری رقم کہاںجاتی ہے؟

اوای سی ڈی کے رکن ملکوں میں تعلیم کی اوسطاً 92فیصد رقوم رواں اخراجات (Current Expenditure)میں جاتی ہیں۔ تعلیم کے شعبہ میں 79فیصد رواںاخراجات کے ساتھ لیٹویا سب سے زیادہ کفایت شعار ملک ہے، جب کہ برطانیہ اور بیلجیم سب سے زیادہ شاہ خرچ ہیں، جہاںتعلیم کے شعبے کی 97فیصد رقوم رواں اخراجات کے لیے صرف کی جاتی ہیں۔رواں اخراجات سے مراد وہ خرچے ہیں، جو تعلیمی اداروں کو چلانے کے لیے سالانہ بنیاد پر درکار ہوتے ہیں اور اس میں سب سے بڑا حصہ اساتذہ کی تنخواہوں کا ہوتا ہے۔غیر تدریسی معاون ملازمین کے اخراجات دوسرے نمبر پر آتے ہیں، جس کے بعد استعمال میں آنے والی ضروری اشیا کی فراہمی، کھانے او رمینٹیننس پر اُٹھنے والے اخراجات کا نمبر آتا ہے۔

اوای سی ڈی کے رکن ملکوں میں اساتذہ کی اوسط لازمی تنخواہ 44,397ڈالر ہے۔ کم آمدنی والے کئی ملکوں میں ترقی یافتہ ملکوں کے مقابلے میں اساتذہ کی تنخواہیں زیادہ ہیں۔ سینٹر فار گلوبل ڈیویلپمنٹ (CGD)کے مطابق، اوای سی ڈی ملکوں میں اساتذہ فی کس آمدنی کے تناسب سے 75فیصد سے 150فیصد تک تنخواہیں وصول کرتے ہیں۔ نیم صحرائی افریقی معیشتوں میں یہ شرح ناقابلِ یقین حد تک حیران کن ہے۔ نائیجیریا میں اساتذہ فی کس جی ڈی پی کے تناسب سے 500فیصد اور ایتھوپیا میں تقریباً 700فیصد تنخواہ حاصل کرتے ہیں۔

امریکا: خرچ زیادہ ، نتائج غیرتسلی بخش

10,759ڈالر فی طالب علم کے اوسط عالمی اخراجات کے مقابلے میں، امریکا ایک طالب علم کو بنیادی تعلیم سے لے کر گریجویشن تک کی تعلیم دینے پر 16,268ڈالر خرچ کرتا ہے۔ تاہم حالیہ برسوں میں اوای سی ڈی کے 36رکن ملکوں میں تعلیمی اخراجات میں اوسطاً 5فیصد اضافے کے مقابلے میں امریکا میں تعلیم پر اُٹھنے والے اخراجات کی شرح میں 4فیصد کمی آئی ہے۔ مزید برآں، نیشنل سینٹر آن ایجوکیشن اینڈاکانومی (NCEE)کے مطابق، سنگاپور کا ایک طالب علم اپنے امریکی ہمعصر طالب علم کے مقابلے میں ریاضی میں 3.5سال اور سائنس میں 2.5سال آگے ہے۔

امریکا جیسےحجم میںبڑے اور متنوع ملک میںتعلیم کی پیمائش کرنا مشکل طلب کام ہے۔ اوای سی ڈی کے اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ آمدنی میں عدم مساوات اور تعلیم کے شعبے میں امریکی درجہ بندی کو نیچے دھکیلنے کی ذمہ دار ہے کیونکہ وسائل کے باوجود امریکااپنے کم آمدنی والے طبقے کی مدد کرنے کی کم صلاحیت رکھتا ہے۔