ظلم کے بارے میں خواب اور حقیقت

December 20, 2012

ایک ہی دن میں آنے والی چند خبروں پر ایک نظر ڈالئے ۔ سوات میں ملالہ یوسف زئی کے نام سے منسوب کئے جانے والے گورنمنٹ ڈگری کالج سیدو شریف کی طالبات نے مظاہرہ کیا ہے۔ ان کا موٴقف ہے کہ ملالہ کے نام پر کالج کا نام رکھنے سے یہ تعلیمی ادارہ بھی طالبان کے نشانے پر آجائے گا۔ ان طالبات نے کلاسوں کا بائیکاٹ کیا، ملالہ کے پوسٹر پھاڑے اور پتھراؤ کیا۔ انہوں نے حکومت کو انتباہ کیا ہے کہ تین روز کے اندر کالج کا پرانا نام بحال کیا جائے۔ادھر اسلام آباد میں سیکورٹی اہلکاروں نے تین افراد کو گرفتار کیا ہے جن پر الزام ہے کہ انہوں نے اسلام آباد کے ایک چرچ اور اس سے ملحقہ اسکول کو ملالہ یوسف زئی کی صحت یابی کے لئے اجتماعی دعا کرنے کی پاداش میں دھمکی آمیز خط بھیجا تھا۔ اطلاعات کے مطابق اس خط میں تاوان کے طور پر پچاس لاکھ روپے کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا۔ سوئیڈ ن کے شہر اسٹاک ہوم سے خبر آئی ہے کہ لاہور میں فائرنگ کا نشانہ بننے والی ماہرتعلیم سسٹر برجیٹا ایمی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہو گئی ہیں۔ ان پر4دسمبر کو نامعلوم افراد نے حملہ کیا تھا۔ محترمہ برجیٹا ایمی لاہور میں متعدد فلاحی اداروں سے وابستہ تھیں اور 35 برس سے اہل پاکستان کی خدمت کر رہی تھیں۔ یہ خبریں بظاہر الگ الگ واقعات کے بارے میں ہیں لیکن ان کا سیاسی اور فکری پس منظر ایک ہی ہے۔ اس کا تجزیہ کرنے سے پہلے ایک اقتباس پر نظر ڈالئے۔
”ایک خواب ایسا ہے جسے میں باقاعدہ وقفوں کے ساتھ بار بار دیکھتا رہتا ہوں…اندھیرا ہے اور مجھے کسی جھاڑی میں قتل کیا جا رہا ہے۔ دس گز کے فاصلے پر ایک سڑک واقع ہے جہاں آمدورفت جاری ہے۔ میں مدد کے لئے چیختا ہوں مگر میری آواز کوئی نہیں سنتا۔ سڑک پر لوگوں کا ہجوم ہنستا اور باتیں کرتا ہوا گزر جاتا ہے“۔
یہ اقتباس معروف سیاسی مفکر آرتھر کوئسلر کے ایک مضمون سے لیا گیا ہے جو جنوری1944ء میں نیو یارک ٹائمز میں شائع ہوا تھا۔ اس وقت مغربی یورپ میں دوسرامحاذ کھولے جانے کی خبریں عام تھیں۔ امریکہ اور برطانیہ میں عام لوگ اپنی یقینی فتح کے قبل از وقت نشے میں تھے۔ مقبوضہ یورپ سے مسلسل اطلاعات موصول ہو رہی تھیں کہ فسطائی جرمنی نے عقوبت خانوں کے ایک پھیلے ہوئے نظام کی مدد سے لاکھوں افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔ یورپ میں نہتے شہریوں پر ایسے مظالم ڈھائے جا رہے ہیں جن کی تاریخ عالم میں کوئی مثال نہیں ملتی لیکن ان خبروں کے باوجود امریکہ اور برطانیہ میں عوام کی اکثریت ان خبروں کو جنگی پروپیگنڈے کا حصہ سمجھتی تھی اور اپنی دنیا میں مگن تھی۔ آرتھر کوئسلرکو دکھ تھا کہ اگر عام لوگ عالمی جنگ کو محض ایک فوجی تصادم کی نظر سے دیکھیں گے اور اس جنگ کے حقیقی سیاسی اور فکری اسباب سے لاتعلق رہیں گے تو اس جنگ کا نتیجہ بے معنی ہو جائے گا۔ کوئسلر نے اپنے اس خواب کی مدد سے یہ المیہ بیان کرنے کی کوشش کی تھی کہ بے پناہ تشدد کا نشانہ بننے والا فرد اپنے اوپرگزرنے والی واردات کو دوسروں تک پہنچانے میں ناکام رہتا ہے۔ ہم سب دوسروں کو پہنچنے والی تکلیف کو ایک ایسی لاتعلقی سے دیکھتے ہیں جس کی بنیاد یہ مفروضہ ہوتا ہے کہ یہ ظلم کسی اور پر ہو رہا ہے اور ہم تک اس کی آنچ نہیں پہنچے گی۔ آج ہم پاکستان میں ایسی ہی کیفیت سے دوچار ہیں۔
پاکستان میں مختلف ریاستی ادارے اور سیاسی گروہ اپنی اپنی وجوہات کی بنیاد پر مسلح انتہا پسندوں کے بارے میں صحیح موٴقف اختیار کرنے سے گریزاں ہیں۔ سیاسی جماعتیں خوفزدہ ہیں کہ عوامی سطح پر دوٹوک موٴقف اختیارکرنے سے ان کے رہنماؤں اورکارکنوں کو گمبھیر خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ ریاستی ادارے طالبان سے لاحق خطرات کا حقیقی حجم بیان نہیں کرتے کیونکہ طالبان کی کھلی مذمت پاکستانی ریاست کے اس موٴقف سے میل نہیں کھاتی جو ہم نے گزشتہ دوعشروں سے اختیار کر رکھا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے اداروں کے اپنے مفادات ہیں اور عامل صحافی جانتا ہے کہ جان ہتھیلی پر رکھ کر بات کرنا کس قدر دشوار ہوتا ہے۔ اگر ہم محاوراتی شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دبائے بیٹھے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ طوفان ہمارے پاس سے گزر جائے گا تو ہم غلطی پر ہیں۔ سوات کی بچیوں کے مظاہرے پر غورکریں ۔ ہمارے لئے یہ اندازہ کرنا بہت مشکل ہے کہ یہ بچیاں کتاب اور قلم سے اپنا تعلق قائم رکھنے کے لئے ملالہ یوسف زئی سے اظہار لاتعلقی پر مجبور ہیں یا انہیں کسی گروہ نے یہ مظاہرہ کرنے پر اکسایا ہے تاہم یہ بات واضح ہے کہ سوات کی طالبات اچھی طرح جانتی ہیں کہ طالبان کا خطرہ ایک مفروضہ نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جسے تسلیم کرنے سے پاکستان کی سیاسی قیادت ، ریاستی ادارے اور رائے عامہ یکساں طور پر گریزاں ہیں۔ سوئیڈن کی فلاحی کارکن کئی عشروں سے پاکستان میں فلاحی خدمات انجام دے رہی تھیں۔ انہوں نے سیاسی اور معاشرتی سطح پر کبھی نمایاں ہونے کی کوشش نہیں کی۔ ان پر حملہ کرنے کی بظاہر یہی وجہ نظر آتی ہے کہ وہ نہایت بے ضرر تھیں۔ وہ اس قدر بے ضرر تھیں کہ ہمارے سیاسی اور تمدنی حلقوں کی طرف سے اس نہایت افسوسناک واقعے پر رسمی اظہار افسوس کی زحمت بھی نہیں کی گئی۔ اگر اعلیٰ سطح پر ہماری بے حسی کا یہ عالم ہے تو پاکستان کے ان عام لوگوں کو اس معاملے کی سنگینی کا کیا ادراک ہو گا جو تعلیم اور ذرائع ابلاغ کے مواقع سے محروم ہیں۔
انتہا پسندی رائے عامہ کی بیداری کا اندازہ لگانا ہو تو اپنے اردگرد پڑھے لکھے لوگوں سے دریافت کر کے دیکھئے کہ کیا اسلام آباد میں جمہوریہ چیک کا کوئی سفارت کار ایک ہوٹل پر خودکش دھماکے میں ہلاک ہوا تھا۔ پاکستان میں خدمات انجام دینے والے چینی انجینئروں کو کس نے اغوا کیا تھا؟ واضح رہے کہ چیک ری پبلک اور چین نے ان واقعات پر امریکہ اور نیٹو سے احتجاج نہیں کیا بلکہ پاکستان سے شکوے پیدا ہوئے۔ ہم اپنے ہاں ہونے والے ہر واقعے کی ذمہ داری کسی ’تیسرے ہاتھ ‘پر ڈال سکتے ہیں اور ہمارے ہاں تیسرے ہاتھ کا مطلب امریکہ ، یورپ اور بھارت لیا جاتا ہے۔ لیکن دنیا جانتی ہے کہ ان واقعات کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے۔ ہمیں بھی یہ پہچاننا چاہئے کہ پاکستان کے سیاسی، ریاستی اور تمدنی ڈھانچوں پر کون حملے کر رہا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ ہم اندھیروں میں اپنے اوپر ہونے والے ظلم پر چیخنا شروع کریں تو ہمیں معلوم ہوکہ چند گز کے فاصلے پر گزرنے والا ہجوم ہماری اذیت سے بے خبر اور لاتعلق ہے۔