وزیراعظم پاکستان سے اہم ملاقات

December 17, 2018

ملک کی موجودہ معاشی صورتحال کے تناظر میں بزنس کمیونٹی نہایت پریشان ہے، روپے کی قدر مسلسل کم ہوتی جارہی ہے اور بینک امپورٹ ایل سیز (LCs) کی ادائیگی کیلئے ڈالرز کو 145 روپے اور اس سے زیادہ میں بھی بک کرنے کو تیار نہیں، اسٹیٹ بینک کے ڈسکائونٹ ریٹ بڑھنے سے بینکوں کی شرح سود 13 سے 14 فیصد تک پہنچ گئی ہے جس سے مالی لاگت میں اضافہ ہوا ہے جس سے ملکی ایکسپورٹ متاثرہوں گی۔ ملک کی غیر یقینی معیشت اور روپے کی گرتی ہوئی قدر کی وجہ سے اسٹاک ایکسچینج میں ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کار گھبراہٹ میں اپنا سرمایہ نکال رہے ہیں جس سے اسٹاک ایکسچینج مسلسل گررہا ہے اور 53000انڈیکس سے کم ہوکر 39000انڈیکس تک پہنچ گیا ہے جس سے چھوٹے سرمایہ کاروں کو اربوں روپے کا نقصان ہوا

اِن حالات میں پاکستان بھر کے بزنس مینوں نے وزیراعظم، وزیر خزانہ اور مشیر تجارت کو ملاقات کیلئے SOS پیغامات بھیجے تھے جس کے نتیجے میں وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ ہفتے اتوار کو پاکستان اسٹاک ایکسچینج، کراچی اور اوورسیز انویسٹر چیمبرز،فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس کے اعلیٰ عہدیداران سے گورنر ہائوس کراچی میں علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کیں جس میں مجھے بھی مدعو کیا گیا تھا۔ وزیراعظم کے ساتھ گورنر سندھ عمران اسماعیل، وفاقی وزرا اور مشیر اسد عمر، علی زیدی، خسرو بختیار، عماد اظہر، ڈاکٹر عشرت حسین، افتخار درانی اور نعیم الحق بھی موجود تھے۔

میٹنگ کیلئے ایک دن پہلے ہم نے فیڈریشن میں بزنس کمیونٹی کو تجاویز دینے کیلئے مدعو کیا تھا جس میں بزنس مینوں نے حکومت کی معاشی پالیسیوں پر عدم اعتماد کا اظہار کیا اور وزیراعظم کیلئے تجاویز دیں لیکن اسی میٹنگ میں ملک کے تین بڑے صنعتکاروں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ پاکستان میں اب صنعت چلانا بہت مشکل ہوگیا ہے جس کی وجہ سے وہ کسی توسیعی منصوبوں میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ ان کی موجودہ صنعتیں ہی چل جائیں، بڑی بات ہے۔ وزیراعظم سے میٹنگ میں میرے علاوہ فیڈریشن کے صدر اور نائب صدر، ایس ایم منیر، زبیر طفیل، خالد تواب، عبدالسمیع خان اور دیگر عہدیداران شریک تھے۔ وزیراعظم کو بتایا گیا کہ بلند شرح سود اور ڈالر کی بڑھتی قدر کی وجہ سے پیداواری لاگت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جس کے باعث صنعت کاری کا عمل جمود کا شکار ہے۔ گزشتہ ماہ بھی فیڈریشن کے وفد جس میں، میں بھی شامل تھا، وزیراعظم عمران خان، وزیر خزانہ اسد عمر اور مشیر تجارت عبدالرزاق دائود سے اسلام آباد میں ملاقات میں ہمیں بتایا گیاکہ حکومت صنعتوں کو بحال اور ایکسپورٹ بڑھاکر گروتھ حاصل کرناچاہتی ہے لیکن اس کیلئے حکومت کی معاشی ٹیم کے پاس کوئی روڈ میپ یا پلان نہیں۔ نئی صنعتیں لگانے کیلئے بجلی اور گیس کنکشن اشد ضروری ہیں جبکہ حکومتی پالیسی کے مطابق سوئی سادرن اور نادرن میں صنعتوں کیلئے نئے گیس اور پانی کے صنعتی کنکشن پر پابندی ہے لہٰذا گیس اور پانی کے بغیر کیسے نئی صنعت لگائی جاسکتی ہے۔ روپے کی قدر میں 21 فیصد کمی اور بینکوں کی شرح سود13سے 14فیصد تک بڑھ جانے کے بعد نئی صنعت کیلئے کوئی سرمایہ کار سوچ بھی نہیں سکتا۔ پیداواری لاگت میں کمی کیلئے بزنس مینوں نے گیس کے بلوں میں GIDC کو فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا جو صنعتیں فی الوقت کورٹ میں جمع کرارہی ہیں۔

تیل کی قیمتوں میں کمی کے باوجود ملکی امپورٹ میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، ہمیں درآمدی مصنوعات کا متبادل ملک میں پیدا کرنا ہوگا، ڈائز کیمیکل، پولیسٹر فائبر اور اس طرح کے بے شمار خام مال جو ٹیکسٹائل صنعت میں استعمال ہوتے ہیں، امپورٹ کئے جارہے ہیں جن کو مقامی طور پر مینوفیکچر کیا جاسکتا ہے۔ پوری دنیا میں چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں (SMEs) کو ملکی گروتھ کا انجن کہا جاتا ہے جن کے فروغ کیلئے بے شمار مراعات دی جاتی ہیں۔ کمرشل ایکسپورٹرز بھی اس سیکٹر کا ایک حصہ ہیں جو مقامی صنعتوں سے اوورہیڈ پر مصنوعات بنواکر براہ راست ایکسپورٹ کرتے ہیں اور ملک کیلئے اسی رنگ کا ڈالر کماتےہیں لیکن وزارت تجارت نے اسے وزیراعظم کے تجارت کے فروغ کے مراعاتی پیکیج میں شامل نہیں کیا جس کی وجہ سے کمرشل ایکسپورٹرز ریبیٹ کا حقدار نہیں اور یہ مراعات صرف مینوفیکچرز کم ایکسپورٹرز کو حاصل ہیں اور اس طرح کمرشل ایکسپورٹرز بین الاقوامی منڈی میں غیر مقابلاتی ہوتا جارہا ہے۔ میں نے وزیر تجارت، وزیر خزانہ کی کئی بار اس تفریق کی طرف توجہ دلائی لیکن اب تک کمرشل ایکسپورٹرز کو ایکسپورٹ پر ریبٹ کی سہولت نہیں دی گئی جو سراسر ناانصافی ہے۔

دنیا بھر میں ایکسپورٹ زیرو ریٹڈ ہوتی ہے یعنی ایکسپورٹ پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا جاتا کیونکہ ایکسپورٹ زرمبادلہ کمانے اور ملازمتیں پیدا کرنے کا ذریعہ ہوتا ہے لیکن ہمارے ملک میں ایکسپورٹ بھی ریونیو کمانے کا ذریعہ ہے اور ایکسپورٹ پر بھی کئی طرح کے ان ڈائریکٹ ٹیکسز نافذ ہیں۔ روپے کو ڈی ویلیو کرکے ملکی ایکسپورٹ ہرگز نہیں بڑھائی جاسکتی کیونکہ آرڈر لینے کیلئے ایکسپورٹر اپنی ڈی ویلیو ایشن کا فائدہ ڈسکائونٹ کی شکل میں خریدار کو منتقل کردیتا ہے۔ شوکت عزیز کے دور حکومت میں ڈالر 60 روپے تھا لیکن ایکسپورٹس میں دگنا اضافہ ہوا تھا۔ ایکسپورٹ بڑھانے کیلئے ہمیں اپنی پیداواری لاگت کو کم کرنا ہوگا۔ ایکسپورٹرز کے 250 ارب روپے کے سیلز اور انکم ٹیکس ریفنڈ جو کئی سالوں سے ایف بی آر میں پھنسے ہوئے ہیں، فوراً ادا کئے جائیں جس کی وجہ سے ایکسپورٹرز کو کیش فلو مسائل کا سامنا ہے۔ اس مسئلے پر وزیر خزانہ نے مجھے یہ بتاکر حیران کردیا کہ نواز شریف کے پانچ سالہ دور حکومت میں تقریباً 3 ہزار ارب روپے کی ادائیگیاں نہیں کی گئیں جو ان کی حکومت کو ادا کرنے ہیں۔ وزیر خزانہ نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ انہوں نے وزیر مملکت برائے ریونیو عماد اظہر کو آئندہ تاریخوں کے پیمنٹ وائوچرز ایکسپورٹرز کو جاری کرنے کی ہدایت کی ہے جن کو بینک سے ڈسکائونٹ کروایا جاسکے گا لیکن ایک مہینہ گزرجانے کے باوجود یہ وائوچرز جاری نہیں کئے گئے۔

آباد کے نمائندوں نے گزشتہ دنوں وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کے دوران کراچی میں 6 منزلہ سے زائد بلند عمارتوں پر پابندی کی وجہ سے بیروزگاری اور معاشی بحران کے بارے میں بتایا۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ سپریم کورٹ نے حال ہی میں یہ پابندی اٹھالی۔ کنسٹرکشن کے شعبے سے 40مختلف صنعتوں کا تعلق ہوتا ہے جس میں سیمنٹ، سریا، سینیٹری، پینٹ، اپلائنسز، کیبل، لائٹس وغیرہ شامل ہیں۔ کنسٹرکشن رک جانے سے یہ تمام شعبے متاثر ہورہے تھے جس سے بزنس مینوں میں شدید بے چینی پائی جاتی تھی۔ جو مسائل بزنس کمیونٹی نے وزیراعظم اور ان کی ٹیم کو بتائے، ان کیلئے نئے نہیں اور وہ ان سے بخوبی واقف ہیں لیکن پلاننگ کے فقدان کی وجہ سے ان کو حل نہیں کیا جاسکا۔ بھارت میں فیڈریشن آف انڈین چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز (FICCI) معاشی پلاننگ میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ہمارے ملک میں بھی معاشی پلاننگ کیلئے بیورو کریسی کے ساتھ معیشت کے دیگر اسٹیک ہولڈرز، صنعتکار، ایکسپورٹرز، کاشتکار، معیشت دان اور فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس کے نمائندوں کو بھی شامل کیا جائے تاکہ ملکی پالیسیوں پر بزنس کمیونٹی کا اعتماد بحال ہوسکے اور ملک کو موجودہ معاشی بحران سے نکالا جاسکے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)