بین التہذیبی ہم آہنگی:دیر آید درست آید

December 18, 2018

گزشتہ دنوں پاکستان اور فلپائن نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں عالمی سطح پر بین الاقوامی تہذیبی ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے انٹرفیتھ ڈائیلاگ شروع کرنے کی قرارداد پیش کی جو عالمی فورم پر متفقہ طور پر منظور ہوگئی۔ یہ ہر دو ممالک کی خصوصاً اور عالمی برادری کی بڑی اہم کامیابی ہے۔ یہ عمران حکومت کی ابتدائی کامیابیوں میں سے ایک بڑی کامیابی ہے کہ اس نے عالمی امن کو یقینی اور پائیدار بنانے کی قرارداد ایک دوست ملک کے اشتراک سے جنرل اسمبلی میں پیش کرکے اسے متفقہ طور پر منظور کرالیا۔ یہ وزیر اعظم عمران کی اس عملی اور علمی پوزیشن کی عکاس ہے جس میں وہ پوری جرأت سے اس امر کا اظہار کر رہے ہیں کہ ’’پاکستان اب عالمی امن کے لئے پارٹنر بنے گا نہ کہ جنگوں میں‘‘ حقیقت یہ ہے کہ انٹرفیتھ ڈائیلاگ اس وقت ایک بڑی عالمی ضرورت ہے جسے جلد ایڈریس نہ کیا گیاتو دنیا کے مختلف خطوں میں تکلیف دہ تنازعات شدت پکڑ جائیں گے۔ لیکن حکومت نہیں تو عالمی امن کے متمنی دانشوروں کو بہت حکیمانہ انداز میں اس کی ضرورت کا احساس دلانے کے ساتھ اس کے مفصل پس منظر کو دنیاکے سامنے لانا ہے کہ اب اس کا وقت آگیا کہ سردجنگ کے خاتمے اور سوویت یونین کے آنجہانی ہونے کے بعد بھی اس کے لاجیکل نتائج کیوں نہ نکلے؟

1980 کا عشرہ جدید عالمی تاریخ کا ایسا تاریخ ساز عشرہ ہے جس میں کمال حکمت اور خاموشی سےسنگین اسٹیٹس کو کے خلاف دھیمی اور سراپا علمی اپروچ اختیار کرتے ہوئے بالشویک انقلاب (1917) کو انتہائی خاموشی سے ریورس کرتے ہوئے انقلاب کی ہیبت ناک پروڈکٹ سوویت یونین کو زمین بوس کردیا گیا جس کے نتیجے میں کمیونزم میںجکڑی 5ریاستیں آزاد ہو کر خود مختار نیشن اسٹیٹ بن گئیں۔ کروڑ ہا انسانوں (اکثریت مسلمانوں) کے قاتل بالشویک انقلاب کے نتیجے میں جبر و استبداد کے بدترین حربوں اور ہتھیاروں سے ظالم روسی زاروں سے بھی بڑھ کر جو روسی کشور کشائی کمیونسٹوں نے قائم کی اس نے دوسری جنگ عظیم میں سرمایہ پرست نوآبادیاتی مغربی طاقتوں کاسرپرست اتحادی بننے سے پہلے اتنی طاقت حاصل کرلی تھی کہ جرمنوں کو حتمی شکست کے بعد جو مال غنیمت مغربی سرمایہ دار فاتحین کے ہاتھ لگا اس میں اتحادی کمیونسٹ روس کو نظر انداز کرنا ممکن ہی نہ تھا، وگرنہ جنگ عظیم کے بعد ایک اور جنگ عظیم ہو جاتی، سو نصف سے بھی زیادہ یورپ بشمول منقسم و مقبوضہ جرمنی سوویت یونین کو بخوبی واحسن سوویت یونین کو پیش کرنا پڑا۔ اپنی تمام علم و فضیلت اور قابل رشک امتیازات کے سنٹرل ایشیائی مسلمان اس لحاظ سے تاریخ کے انتہائی بدنصیب لوگ ٹھہرے کہ یہ روسی زاروں کی سفاکانہ شاہی میں بھی ملینیز میں قتل کئے گئے اور یہ ہی وحشت اور ہیبت زاروں کے خاتمے کے بعد کمیونسٹ انقلاب کے برپا ہونے پر عشروں تک ان پر جاری رہی۔

اگرکسی مورخ اور محقق نے پوری انسانی تہذیب کے عمل میں ’’انسان پر انسان کے مظالم کی داستانوں میں سب سے ہیبت ناک، مسلسل اور وسیع شکل‘‘ سے کچھ اخذ کرنا مقصود ہو تو اسے ہلاکو، چنگیز خان اور جنگ ہائے عظیم کے مطالعے سے زیادہ جدید تاریخ کے اس مرحلے (بعد از کمیونسٹ انقلاب تا انہدام سوویت ونین کے سنٹرل ایشیائی ریاستوں اور مشرق یورپ اور یورپین آباد کاروں کے ریڈانڈین کے قتل عام اور افریقی غلاموں پر مظالم) کی داستانوں کے خوفناک حقائق تک پہنچ کرکرنا پڑے گا۔ خیر ہو آج کے ارب ہا انسانوں کی یہ تو بعد از دوسری جنگ عظیم پر دو نئی عالمی طاقتوں کے درمیان وسیع تر تباہی پھیلانے والے اسلحے کے ڈھیروں کے توازن اور پھر طاقتور میڈیا جیسے سوفٹ ویپن کی ایجادات تیسری جنگ کو روکے رکھ کر سرد جنگ کا ماحول پیدا کئے رکھا جس میں ہر دو عالمی طاقتوں نے اپنی نظریاتی انا کی تسکین کے لئے ترقی پذیر دنیا کو اپنے زیر اثر (جو جتنا لا سکتا تھا) لاکر پراکسی وار سے اپنا شوق جنگ پورا کیا، وگرنہ براہ راست تصادم میں نہ جانے دنیا کا کتنا حصہ نیست و نابود ہو چکا ہوتا۔

سوویت ایمپائر کے انہدام کے بعد لاجیکل نتیجہ تو یہ واضح تھا کہ اب اقوام متحدہ کا منشور حقیقی معنوں میں روبہ عمل آتا اور دنیا، عالمی برادری کی ترستی تمنا کے مطابق امن کا گہوارہ بنتی،لیکن فاتح امریکن اینگلو بلاک نے ’’اسلامی بنیاد پرستی‘‘کا ہوا کھڑا کرکے اسے عالمی خطرے کے طور پر پیش کیا حالانکہ یہ مشرق وسطیٰ کی مسئلہ فلسطین کے حوالے یا اپنی انتہا پسندانہ مذہبی سوچ کی حامل دو تین تنظیموں تک محدودتھا، لیکن امریکن اینگلو بلاک کے زیراثر اسلامی ممالک میں جمہوریت کے برعکس اپنے ’’قومی مفادات‘‘ کی خاطر ’’بند معاشروں‘‘ اور ملوکیت کی بخوشی قبولیت اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے برعکس مسئلہ فلسطین میں قراردادوں کو نظرانداز کرکے اسرائیل کی سرپرستی کے ردعمل کو خود امریکن اینگلو بلاک نے بنیاد پرستی یا سیاسی و مذہبی انتہا پسندی کو دہشت گردی تک پہنچانے میں نادانستہ اور دانستہ کردار ادا کیا۔ یہ الگ سوال ہے جن کے خلاف یہ کردار ادا ہوا ان میں اس کا حقیقی تجزیہ دنیا کے سامنے پیش کرنے کی سکت ہے یا بالکل نہیں؟ مسئلہ فلسطین اور کشمیر پر جس طرح اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ردی کی ٹوکری میں ڈالا گیا، اسرائیل، بھارت اور میانمر کی ریاستی مذہبی جنونیت اور دہشت گردی پر جس طرح عالمی دہشت گردی کی جنگ کے خلاف لڑنے والے کمان دار ممالک خاموش ہیں، یورپ دانستہ حتیٰ کہ سکینڈے نیویا جیسے پرامن اور غیر جانبدار یورپی خطے میں بھی کیری کیچر جیسے اشتعال انگیز ایشوبار بار پیدا کرکے سوویت یونین کے انہدام کے بعد پیش کئے گئے سموئیل ہنگ ٹنگ ٹن کے Well crafted thesis’’کلیش آف سولائزیشنز‘‘ سامنے لاکر عالمی سطح پر اشتعال، تنائو اور تنازعات کا جو ماحول بنایا گیا وہ عالمی معاشرے کی اس ترستی تمنا کے برعکس تھا، جس میں بین الاقوامی کمیونٹی خصوصاً آزاد دنیا (اور بند معاشروں اور ملوکیت کے شکاربھی) منتظر تھی کہ کب سوویت یونین اپنے منطقی انجام کو پہنچے تو دنیا میں ترقی، امن، جمہوریت اور خوشحالی کا حقیقی سفر شروع ہو۔ کیا یہ آج کا بڑا سوال نہیں کہ کیا 9/11 سرد جنگ کے خاتمے کے بعد اس کے منطقی نتیجے، دنیا میں حقیقی امن، اقوام کی خود ارادیت کے حصول کے عمل اور ترقی پذیر ممالک کی خود مختاری میں مصنوعی امر واقع ہے کہ 9/11 کے فوری بعد امریکی حکومت کے قدرتی اشتعال سے دنیا اتنی سہم گئی کہ اس سوال کو نہ اٹھایا گیا نہ آنے والے برسوں میں اس کی جرأت پیدا ہونے دی گئی کہ اس کا حقیقی تجزیہ کرکے، دنیا کو سرد جنگ کا عذاب ختم ہونے کے بعد بھی بین الاقوامی اتحاد، مفاہمت، پائیدار امن، حقیقی جمہوریت اور ترقی و خوشحالی کی طرف لایا جائے۔

اب وقت آگیا ہے کہ جب امریکن اینگلو کا اینگلو ونگ (یورپی یونین) بھی امریکہ کی جدید مگر سخت متنازع اپروچ کے خلاف منہ کھولے تو جنرل اسمبلی میںپاکستان اور فلپائن کی پیش کی گئی قرارداد جسے جنرل اسمبلی کی متفقہ تائید حاصل ہوگئی ہے، کو دنیا میںپروموٹ کرتے ہوئے بین التہذیبی ہم آہنگی کے لئے انٹرفیتھ ڈائیلاگ کی سفارتی اور علمی کوششوں کا آغاز کیا جائے۔

یہ نئے پاکستان کا عظیم اقدام ہوگا جسے اٹھانے سے پہلے او آئی سی، افریقین یونین، یورپی یونین، امریکہ، چین، روس اورترکی و روس جیسے ممالک سے سفارتی مشاورت میں جایا جائے۔ کاش عالمی سطح پر منتظر ممالک اس مشترکہ عالمی ترجیح وضرورت کے لئے سرد جنگ کے خاتمے کے بعد اپنی سفارتی کوششں کاآغاز کرتے لیکن غلبے کے خواہشمند اور اس جدید وجمہوری دور میں بدقسمتی سے مذہبی منافرت اورنسلی تعصب میںمبتلا طاقت ور ممالک کی پیدا کردہ رکاوٹوں سے ایسا نہ ہو سکا، چلیں اب ہوا ہے تو اسے دیر آید درست آید کے مصداق لے کر عملاً محرک ہوا جائے۔ یہ ایک بار پھر پائیدار عالمی امن اور ترقی و خوشحالی کے لئےعظیم انسانی کامیابی کی کوشش ہوگی جو پاکستان کے عالمی امیج کو بلند کرےگی۔ وماعلینا الاالبلاغ۔