دسمبر کی رونقیں

December 22, 2018

(گزشتہ سے پیوستہ)

اس پس ِ منظر میں ذہن اس طرف ضرور جاتا ہے کہ سارے تعصبات آخر ہمارے اندر کیوں پائے جاتے ہیں ابھی تک یہ بحث ہمارے اندر موجود ہے کہ کوئی غیر مسلم فلاں کلیدی عہدے پر فائز ہو سکتا ہے یا نہیں۔ ہم دیانتداری سے جائزہ لیں کہ کیا یہاں یہ ممکن ہے کہ کوئی برطانوی نژاد تو رہا ایک طرف کیا کوئی پاکستانی غیر مسلم یا مسیحی ہمارے عام ووٹوں سے منتخب ہو کر لاہور کا مئیر بھی بن جاتا؟اس تقریب میں محترمہ سمیعہ چوہدری نے سوال اٹھایا کہ مختلف اداروں میں خواتین کی نمائندگی کس قدر ہے ؟ہمارے ایک صحافی بھائی نے صحافتی اعداد شمار سے یہ ثابت کر دکھایا کہ گویا اُن کے ادارے میں خواتین تو مردوں پر حاوی ہو چکی ہیں اس پر درویش نے عرض کی کہ محترمہ یہاں تصویر کا دوسرا رخ پیش کرنا چاہتاہوں۔ مثال کے طور پر ہمارے لاہور کی 274یونین کونسلیں ہیں جن کے 274چیئرمین ہیں اتنے ہی وائس چیئرمین ہیں اُن سے زیادہ سیکرٹریز یونین کونسلز ہیں لیکن ان تمام عہدوں پر کوئی ایک بھی خاتون نہیں ہے۔ ناچیز اس مغربی سوسائٹی کی فراخ دلی کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے ساتھ دعا گو ہے کہ وطنِ عزیز میں بھی اس نوع کی اوپن اپروچ ابھرے۔تقریبات تو اور بھی ہیں جن میں شرکت کے احوال بیان کرنے کی خواہش ہے مگر اس چکر میں اصل موضوع رہ جائے گا۔ ہماری موجودہ حکومت جب سے برسرِاقتدار آئی ہے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ایک نوع کا تناؤ ہے جو کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔سب سے پہلے تو الیکشن یا سلیکشن کے حوالے سے بحث ہی ختم نہیں ہو رہی تھی اور ایسی شدید رائے بھی پائی جاتی تھی کہ تمام تر اسمبلیوں کو ہی مسترد کر دیا جائے لیکن سنجیدہ حلقوں نے ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ جیسا تیسا بھی سسٹم ہے، اسے چلنے کا موقع ملنا چاہئے۔ پارلیمنٹ کا اولین فریضہ قانون سازی ہے جسکیلئے کیلئے قائمہ کمیٹیوں کی اہمیت سے کوئی بھی باشعور شخص بے خبر نہیں ہو سکتا مگر حکومت اور اپوزیشن میں پہلے دن سے یہ میچ پڑ گیا تھا کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سربراہی اپوزیشن لیڈر کو دی جائے گی یا نہیں ؟یہ کمیٹیاں اصولاًقائد ایوان کی تقریر کے بعد ایک مہینے میں بن جانی چاہئیں تھیں مگر متذکرہ بالا تنازع کی وجہ سے پارلیمنٹ میں کوئی بھی قانون سازی عملاًنا ممکن ہو کر رہ گئی تھی کیونکہ حکومت بضد تھی کہ اس نے قائدِ حزب اختلاف کو اس اہم ترین کمیٹی کا چیئرمین نہیں بننے دینا جبکہ پارلیمانی روایت کے مطابق یہ اپوزیشن کا حق تھا جسے منوانے کیلئے نہ صرف تمام اپوزیشن متحد ہو گئی بلکہ روگردانی کی صورت میں انہوں نے دیگر تمام قائمہ کمیٹیوں میں شمولیت سے بھی انکار کر دیا یوں اس بلاجواز حکومتی ہٹ دھرمی کی وجہ سے پارلیمنٹ کی کارکردگی نشستند،گفتند اور برخاستند تک محدود ہو گئی جو جمہوریت کے حوالے سے سخت تشویش ناک صورتحال تھی۔ پارلیمنٹ سے باہر ناخوشگوار ماحول بھی اس گرمی کو بڑھا رہا تھا جس کی گونج پارلیمنٹ کے اندر سنائی دے رہی تھی کہ نیب کے تمام ہیٹر محض اپوزیشن کو گرمانے یا سلگانے کیلئے ہیں جبکہ اس کی آنچ حکومتی بنچوں تک رسائی سے قاصر ہے۔ خواجہ برادران کی جس طرح گرفتاری ہوئی یا محترمہ مریم اورنگ زیب کے خلاف جس طرح کی درخواستیں دائر کروائی گئیں اس پس منظر میں تلخی مزید بڑھنے کا احتمال تھا کہ یکایک حکومتی بنچوں پر براجماں سنجیدہ ممبران نے اسپیکر کی معاونت سے سنگینی کی نوعیت وزیراعظم تک پہنچائی جنہوں نے اپنے سابقہ موقف سے دستبرداری کا فیصلہ کرتے ہوئے جمہوری مفاہمت کے سامنے سر جھکا دیا جو یقیناً ہر حوالے سے قابلِ ستائش ہے۔ اپنے غلط موقف پر ڈھٹائی دکھانا عزم نہیں جہالت کہلاتا ہے۔ مانا کہ سسٹم میں بہت خرابیاں ہیں، موجودہ حکومت جس طرح برسرِ اقتدار آئی ہے اس پر بھی سوالات ہیں لیکن جمہوریت پر ایمان رکھنے والا کوئی شخص یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ لنگڑی لولی جمہوریت کی بساط لپیٹ کر غیر جمہوری قوتوں کو براہِ راست براجمان ہونے کا موقع فراہم کیا جائے۔ جیسی تیسی جمہوریت ہو گی تو اس میں بہتری کی گنجائش بھی نکلے گی۔ہمارے دوست فواد چوہدری صاحب کو بھی اپنا زاویۂ فکر تبدیل کرنا چاہیے۔احتساب کا کوئی بھی باشعور پاکستانی مخالف نہیں ہے مگر احتساب اندھا کانا تو نہیں ہونا چاہیے اور پھر اسے محض سیاستدانوں تک محدود کیونکر اور کس اصول کے تحت رکھا جا رہا ہے ؟آخر بھاری تنخواہیں وصول کرنے والے طاقتور طبقات کو استثنا کس اصول کے تحت دیا گیا ہے؟ اپوزیشن جب یہ مان چکی تھی کہ پبلک اکاونٹس کمیٹی ن لیگ کے دور کا آڈٹ اپوزیشن لیڈر کی سربراہی میں نہیں کرے گی اس کیلئے ذیلی کمیٹی یا غیر جانبدارنہ اہتمام کیا جائے گا تو پھر مخالفت کی کوئی بنیاد نہیں بنتی تھی جبکہ اس کمیٹی میں تمام حکومتی و اپوزیشن جماعتوں کی نمائندگی موجود ہوتی ہے۔ ہماری نظر میں اس متفق علیہ کمیٹی کو آڈیٹر جنرل کی رپورٹس کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ اس امر کا اہتمام بھی کرنا چاہیے کہ دیگر ادارہ جات سے منسلک شخصیات اور اداروں کے ووچرز تک احتسابی دائرہ کیسے وسیع کیا جا سکتا ہے۔ عوامی نمائندوں کو تو ہر پانچ سال بعد کڑے عوامی شکنجے چھاننی یا احتساب سے گزر کر آنا پڑتا ہے لیکن ادارہ جاتی افسران تو طویل دورانیے تک چھائے رہتے ہیں۔ آئین کے مطابق جب تمام شہری برابر ہیں تو پھر انصاف اور قانون کی عمل داری میں بھی کسی کو کوئی اندھا استثنا نہیں ہونا چاہیے اور یہ تمام عمل پارلیمنٹ کی بالادستی کے تابع ہونا چاہیے۔ اگربائیس کروڑ عوام اس ملک کے مالک و وارث ہیں تو پھر ان کے منتخب نمائندوں کا یہ حق ہونا چاہئے کہ وہ اپنے ماتحت اداروں کی جواب طلبی یا جوابدہی کریں۔