قائد اعظم سے قائد عوام تک

January 05, 2019

میری بیٹی فاطمہ کا آج پندرھواں جنم دن ہے اور اسے میں سالگرہ کی مبارک باد دینے کے ساتھ ساتھ یہ بتا رہا ہوں کہ آج ایک بہت بڑے انسان کا بھی جنم دن ہے جو آج اگر ہم میں ہوتےتو ان کی عمر 91 سال ہوتی ۔

پھر میں نے اسے بتایا کہ وہ عجیب لوگ تھے جنھوں نے اپنی جانوں کی پرواہ نہ کی ۔جو نہ کبھی رکے اور نہ ہی ان کو جھکایا جا سکا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو صدیوں کی تاریخ لئے پیدا ہوتے ہیں اور اپنی جراتوں سے زمانے کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتے ہیں۔ ان کا ہونا ہی بہت مبارک ہوتا ہے ،ان کا خمیر بھی غیرت اور حمیت سے اٹھتا ہے ۔ ان کو کوئی مسخر نہیں کر سکتا لوگ مسخر ہو جاتے ہیں ان کی کرشماتی شخصیت کے آگے بڑے بڑے چھوٹے پڑ جاتے ہیں ۔

پاکستان نے دو ایسی شخصیات دیکھی ہیں ایک اس کے بانی حضرت قائد اعظم محمد علی جناح اور دوسرے اہل پاکستان کو ایٹم بم کا تحفہ دینے کی پاداش میں اپنوں ہی کے ہاتھوں پھانسی کے پھندے پر جھولنے والے ذوالفقار علی بھٹو جن کی آج 91 ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے۔

آج اگر یہ عظیم انسان اس فانی دنیا میں ہوتا شاید پاکستان کی تاریخ کا دھارا کسی اور رخ بہہ رہا ہوتا۔ افسوس ہنری کیسنجر کی دھمکی کو عملی جامہ بھی اپنوں کے ہاتھوں ہی پہنایا گیا۔ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے والے اس مرد مجاہد کو سکیورٹی رسک کہا جاتا رہا۔ اس مظلوم کا عدالتی قتل کیا گیا ،عدالت میں اس کی تذلیل کی گئی۔

جسٹس نسیم حسن شاہ مرحوم اعتراف کر چکےہیں کہ ان پر حکومت کا بے حد دباؤ تھا آخر یہ کیسا انصاف تھا؟انصاف کا خون کیا گیا اور آج بھی ہر پاکستانی کی گردن پر اس مظلوم وزیر اعظم کے خون ناحق کے دھبے ہیں ۔

آہ اس کی بیٹی جو چاروں صوبوں کی زنجیر تھی وقت کا سب سے بڑا آمر اس سے خوفزدہ تھا اسے ہروانے کے لئے 9 ستارے جمع کئے گئے لیکن اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم کا اعزاز اس کو مل گیا۔ کوئی بھی اس بھٹو ازم کی قوت کو نہ سمجھ سکا اور نہ ہی روک سکا اور آج بھی بھٹو زندہ ہے اور جب تک سورج اور چاند روشنی دیتے رہیں گے بھٹو کی کرشماتی شخصیت کا طلسماتی حصار اہل دل کے ساتھ رہے گا ۔

کروڑوں دلوں کا شہنشاہ آج بھی ذوالفقار علی بھٹو ہے اور ہمیشہ رہے گا ۔ کہاں ہیں وہ آمر اور ان کے حواری جو بھٹو اور اسکی بیٹی کو ختم کرنے نکلے تھے آج ان کا نام لیوا بھی کوئی نہیں ہے.جو لوگ دلوں میں دھڑکنیں بن کر زندہ رہ رہتے ہیں وہ نسلوں کے ساتھ زمانوں کا سفر طے کرتے ہیں اور امر ہو جاتے ہیں ۔

محبت جب عقیدت بنتی ہے تو فاتح عالم بن جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ آج کروڑوں آنکھیں شہید جمہوریت قائد عوام کو یاد کر کے اشک بار ہیں لاکھوں افراد رب کائنات کے حضور اس مظلوم کے لئے دعا گو ہیں۔ بقول احمد ندیم قاسمی :

وہ عجیب لوگ وہ قافلے

جو نہ رُک سکے نہ بھٹک سکے

جو چمن سجا کے چلے گئےجو وطن بنا کے چلے گئے

ہمیں یاد ہیں

ہمیں یاد ہیں

میری گڑیا اب میری آنکھوں سے آنسو پونچھ رہی ہے ،میں نے اسے بے اختیار اپنے سینے سے لگا لیا ہے اور دل میں ایک سکون کا احساس ہے جو جیسے ٹھہر گیا ہے مجھے اطمینان بھی ہے کہ میں نے اگلی نسل تک چمن سجانے والوں کی یاد منتقل کر دی ہے۔