بھارت کیخلاف کون بولے گا…؟

January 11, 2019

ڈیٹ لائن لندن … آصف ڈار
بھارت میں جس تیزی کے ساتھ مسلمانوں کی بے توقیری کی جا رہی ہے، اس سے لگتا ہے کہ اگر وزیراعظم نریندر مودی کی پارٹی خدانخواستہ اس سال انتخابات میں پھر کامیاب ہوگئی تو اس ملک میں نہ صرف مسلمانوں بلکہ دوسری اقلیتوں کا جینا بھی محال ہو جائے گا۔ گزشتہ چند برس کے دوران بھارتی شہروں اور اداروں کے مسلمان ناموں کو ہٹا کر ہندو ناموں میں تبدیل کرنے سے بھی ظاہر ہوتاہے کہ بالآخر انہیں انتہاپسند ہندو بھارت کا سیکولر امیج ختم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے اور یہ مطالبہ بھی زور پکڑ جائے گا کہ وہاں رہنے والے مسلمان یا تو ہندو بن جائیں یا پھر ملک کو چھوڑ دیں۔ مسلمانوں کے اندر خوف اور سراسیمگی کا عالم یہ ہے کہ انہوں نے بھارت کی دوسری بڑی اقلیت ہونے اور انتخابات میں اثر انداز ہونےکی قوت رکھنے کے باوجود چپ سادھ لی ہے۔ اب کچھ عرصہ سے مسلمان ہندوؤں کی جانب سے گائے کےنام لے کر مسلمانوں کو قتل اور ان پر تشدد کے خلاف زبانی احتجاج بھی نہیں کرتے۔ ہندو غنڈے کسی مسلمان کے گھر میں گھس کر عورتوں کو بے آبرو کردیں تو بھی کوئی مسلمان نہیں بولتا۔ مسلمانوں کی زمینوں، جائیدادوں اور گھروں پر قبضے ہو جائیں تب بھی کسی کی زبان نہیں کھلتی۔ اگر کوئی مسلمان کسی بات پر احتجاج کردے تو اس کے خلاف سخت ردعمل ظاہر کیا جاتا ہے اور اسے پاکستان جانےکا مشورہ دیا جاتا ہے۔ سر سید احمد خان جیسے نظریات رکھنے والے بھارتی فلموں کے لیجنڈ اداکار اور دانشور نصیرالدین شاہ سے مسلمانوں کی یہ خاموشی شاید دیکھی نہیں گئی اور انہوں نے آخر کارزبان کھولتے ہوئے اس تشویش کا اظہار کیا کہ اگر ان کے بچوں پر کوئی حملہ کردیتا ہے یا ان سے ان کے مذہب کے بارے میں پوچھتا ہے تو وہ اس کا مقابلہ کیسے کریں گے؟ کیونکہ انہوں نے اپنے بچوں کو تو صرف انسانیت کی تعلیم دی ہے۔ انہوں نے یہ تک کہہ دیا کہ اب مسلمان خود کو بھارت میں غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔ اس پر حسب معمول ہندو انتہا پسندوں اور ان کے پاگل میڈیا نے نصیرالدین شاہ پرنشتر برسا دیئے اور انہیں فوری طور پر بھارت چھوڑ کر پاکستان جانے کا مشورہ دیا۔ اس صورتحال کو دیکھ کر کوئی دوسرا بااثر مسلمان ہندوؤں کے خلاف زبان کھولنے کی جرأت نہیں کرتا۔ افسوس ناک بات یہ بھی ہے کہ مغربی میڈیا اور حکومتوں نے بھی بھارت میں انتہا پسندی، گاؤ ماتا کے نام پر قتل و غارت گری اوراقلیتوں کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک پر آنکھیں موند رکھی ہیں۔ مغربی حکومتوں کو شاید یہ ڈر ہے کہ اگر انہوں نے مودی سرکار کے خلاف زبان کھولی تو اس بڑی اقتصادی قوت کے ساتھ تعلقات خراب ہوجائیں گے جس سے ان کو اقتصادی طورپر نقصان ہوگا۔ میڈیا اس لئے آواز نہیں اٹھاتا کہ بھارت صحافیوں کو کشمیر یا بھارت کے شورش زیادہ علاقوں میں جانے ہی نہیں دیتا۔ اگر کوئی صحافی بھارت کے خلاف کوئی خبرچلا دےیا آرٹیکل لکھ دے تو دوبارہ اس کو ویزہ نہیں دیا جاتا۔ یہی نہیں بلکہ اس کے ٹی وی چینل یا اخبار کا بھی بائیکاٹ کر دیا جاتا ہے۔ بھارت نے خود اپنےمیڈیا کو اس قدر دبا رکھا ہے کہ زبان کھولنے والے کی ہندو انتہا پسند سرزنش کردیتے ہیں۔ کوئی مسلمان ملک بھارتی مسلمانوں کی اس صورتحال پر آواز نہیں نکالتا۔ مودی کا استقبال ریڈکارپٹ پر کیا جاتاہے۔ رہ گیا پاکستان تو اس کی آواز صدا برصحراکی طرح ہی ہوتی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں قتل و غارت گری ہو یا بھارت کے مندر مسلمانوں کی ابتر صورتحال، پاکستان تمام معاملات کو عالمی فورمز پر لے جاتا ہے مگر بھارت کی عالمی لابی اس قدر مضبوط ہے کہ عالمی برادری کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی بلکہ الٹا پاکستان کے خلاف ہی بات کی جاتی ہے جبکہ انتخابات کی آمد اور غرور و تکبر کی وجہ سے بھارت آئے روز پاکستان کو دھمکیاں دے رہا ہے۔ دو بار ڈرون حملے بھی کرنے کی کوشش کی مگر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ خود پاکستان کی اندرونی حالت ایسی نہیں کہ وہ بھارت کے ساتھ کسی بھی قسم کی ٹکر لے سکے۔ اس کے لئے اس کو نہ صرف سنجیدگی کے ساتھ افغانستان کامسئلہ حل کرنا ہوگا بلکہ عالمی سطح پر اپنی لابی کو مضبوط بنانا ہوگا۔ مغربی ممالک کے ساتھ ساتھ مسلمان ممالک کو بھی اعتماد میں لینا ہوگا۔ دنیا پر بھارت کا اصلی چہرہ آشکار کرنا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے اندر سے انتہاپسندی کا خاتمہ کرنے کے لئے اقدامات کرنا ہوں گے۔ اس وقت موقع ہے کہ پاکستان بھارت کی موجودہ صورتحال کا فائدہ اٹھائے اور ساری دنیا میں اپنے سفارتخانوں کو متحرک کرے۔ اس وقت بھارت کے اندر سے نہ صرف مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کی اکثریت کی آواز سے آواز ملا کر بھی چلنا ہوگا جو خود بھی بھارت کے اس موجودہ مکروہ چہرے سے پریشان ہیں۔