بچوں کی شخصیت سازی کیلئے توجہ دیں

January 13, 2019

زندگی کی اساس تجربہ ہے اور تجربہ بڑوں کے پاس ہوتا ہے۔ کوئی بھی مرد و زن جب شیر خوار ہوتا ہے تو ماں کی گود اسکی پہلی درس گاہ ہوتی ہے۔ ابتدائی پانچ برس جسمانی اور ذہنی نشو و نما کے ہوتے ہیں، جن میں کسی بھی نونہال کے رجحان و میلان کی صورت گری ہوتی ہے۔ یہی برس بچے کی حرکات و سکنات سے اس کی فطرت اور رجحان کا پتہ دیتے ہیں۔ کچھ بچے فطرت کی طرف سے ذہین پیدا ہوتے ہیں۔ بچپن کی عادتیں جوانی میں پیشے کا تعین کرتی ہیں۔والدین اور اساتذہ کی ذرا سی توجہ بچوں کو کامیاب کیریئر کی شارع پر گامزن رکھتی ہے۔

والدین کا کردار

والدین کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر بھرپور توجہ دیں، تاہم کچھ ایسے بھی ہیںجو اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوںکی وجہ سے یہ کام ٹھیک طریقے سے انجام نہیں دے پاتے۔اکثر بچے جوہر شناس نظر کی توجہ کے طلب گار ہوتے ہیں۔ والدین اپنے لختِ جگر کو اچھا اسکول اور بہتر ٹیوشن فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انھیں اپنے بچوںکے مستقبل کے حوالے سے کچھ باتوں کا دھیان رکھنے کی ضرورت ہے۔

٭بچے کو اپنی طرح ڈاکٹر بنائیں یا کسی اور شعبے کی طرف لانے کی سعی کریں۔ ایک بات یاد رکھیں !اپنے بچوں کی حوصلہ افزائی ان مضامین میں کریں ، جن کی فطری صلاحیت ان میں پوشیدہ ہوتی ہے۔

٭ بچے آپ کی توجہ چاہتے ہیں۔ انہیں خود اسکول لیجائیں، صرف گیٹ تک چھوڑ کر اپنی ذمہ داری پوری نہ کریں۔ ہیڈ مسٹریس یا ہیڈ ماسٹر سے ملاقات کریں اور اپنے بچے کی کارکردگی معلوم کریں،جہاں کمی ہےوہاں دھیان دیں۔

٭استاد کی تدریس پر سوال اٹھائیںتاکہ اسکول انتظامیہ کو آئندہ احساس رہے کہ والدین کی بچے اوراساتذہ کی کارکردگی پر نظر ہے۔

٭ گھر میں بچوں کے لیے آرام دہ اسٹڈی روم بنائیں۔ میز کرسی پر لغت اور درسی کتابوں کا سیٹ سجا ہونا چاہیے۔ ہوم ورک کے مطابق ساری کتابیں، کاپیاں، قلم، پینسل، ربڑ اور کلر پینسلز جیسی اسٹیشنری دسترس میں رہنی چاہیے۔

٭ پڑھائی کے دوران بچے کابغور مشاہدہ کریں۔ جو بات سمجھ نہ آئے تو اسے سمجھنے میں اس کی مدد کریں۔

٭تعلیمی فلمیں دکھائیں، اس دوران آپ کی موجودگی لازمی ہے،تاکہ انہیں لگے کہ آپ ان کے دوست ہیں۔

٭ پڑھائی کے دوران بچوں کو حد سے زیادہ لاڈ نہ کریں۔ پیار اور پڑھائی میں توازن رکھنا ہوگا۔

اساتذہ کا کردار

دنیا چاہے کتنی بھی آگے بڑھ جائے، شخصیت و کردار سازی میں اساتذہ کے کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ ہر کامیاب مرد یا عورت کے پیچھے ایک استاد یا استانی کا ہاتھ ہوتا ہے، جو قطرہ قطرہ علم بچوں کی روح میں منتقل کرکے انہیں اعلیٰ مقام پر فائز کرتے ہیں۔ ایک اچھا استاد ہی کسی قوم کو تعلیم یافتہ و مدبر بنا سکتا ہے۔ دنیا کے نامور اساتذہ اپنے ہمعصر اساتذہ کو بچوںکی تعلیم و تربیت اور شخصیت سازی کے حوالے سے درج ذیل صائب مشورے دیتے ہیں۔

٭بچے کی دلچسپیاں معلوم کیجیے اور اس سے پوچھیے کہ کون سا مضمون بھاتا ہے؟مستقبل میں کیا بننے کا ارادہ ہے؟پھر اس جواب کی روشنی میں بچے کو کھیل کھیل میں تعلیم دیجیے۔

٭یاد رکھیے!آپ کو سب پتہ ہے لیکن بچے نہیں جانتے ، جیسے کہ حرف و لفظ کیا ہے؟ کیسے مل کر جملے کی شکل میں ڈھلتا ہے؟ حروف تہجی کے لیے رنگ برنگے فلیش کارڈز استعمال کیجیے۔ روز ایک لفظ کا تعارف معمول بنالیں۔ روزانہ اس لفظ کے پانچ مفاہیم جملوں کے ساتھ بورڈ پر لکھیں۔ بچوں کو اس لفظ کی مختلف اشکال، تذکیر و تانیث اور ہر لفظ کا درست استعمال اور تلفظ بتائیں۔ انھیں خود سے فلیش کارڈز بنانے پر مائل کریں۔

٭ریاضی کی تعلیم کے دوران ہر طالب علم کو یہ ٹاسک دیں کہ وہ کہاں تک گنتی یاد کر سکتا ہے۔ ان کی حوصلہ افزائی کریں تاکہ وہ اس میں بھرپور دلچسپی لیں۔

٭انگریزی گرامر کو اجزائے کلام سے نہیں بلکہ جملے کی اقسام اور فاعل،فعل،مفعول کی ترتیب سے سکھائیں کہ کون سا لفظ کہاں اسم و فعل، ضمیر و صفت کی صورت ڈھلتا ہے۔ اجزائے کلام خود بخود جملے میں آتے جائیں گے۔ اگر فاعل، فعل، مفعول(SVO)بنیادی فارمولے پر انگریزی کو لیتے چلیں گے تو الفاظ کی ترتیب چنداں دشوار نہیں ہوگی۔ حالتِ مفعولی میں فائل فعل کی جگہ آئے گا جب کہ دیگر تراکیب وہی رہیں گی۔

٭بچوں کے درمیان گروپ اسٹڈی کراتے ہوئے ہر بچے سے باری باری ایک ایک پیراگراف سبق پڑھوائیں اور کسی بھی پیراگراف سے سوال پوچھ لیں۔اس طرح بچے کی توجہ نہیں بٹے گی اور وہ کلاس روم ریڈنگ سیشن کا فعال حصہ ہوگا۔