ٹیکس فری منی بجٹ

January 14, 2019

منی بجٹوں کی شکل میں ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبے عوام پر محصولات کے نئے طومار لادے جانے کے سابقہ تجربات سے خوفزدہ پاکستانی قوم کیلئے وفاقی وزیر خزانہ کا یہ اعلان یقیناً نہایت خوشگوار ہے کہ 23جنوری کو پیش کیا جانے والا منی بجٹ ٹیکس فری ہو گا اور اس کا اصل مقصد کاروبار اور تجارت کو آسان بنانا اور نجی شعبے کی معاشی سرگرمیوں کی راہ میں حائل غیر ضروری پابندیوں کو ختم کرنا ہو گا۔ وزیر خزانہ نے ہفتے کو ایوانِ صنعت و تجارت کراچی میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کاروباری طبقے کیلئے یہ اطمینان بخش انکشاف بھی کیا کہ وفاقی بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کا اسٹیچوٹری ریگولیٹری آرڈرز (ایس آر او) کے اجرا کا اختیار ختم کر دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب ٹیکس پالیسی میں کسی بھی قسم کی تبدیلی پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد ہو گی۔ اسد عمر نے مزید بتایا کہ وفاقی حکومت فی الحال انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے پاس نہیں جا رہی بلکہ ہم دیگر راستوں پر غور کر رہے ہیں۔ بلاشبہ آئی ایم ایف کی مدد کے بغیر مالی مشکلات پر قابو پا لینے کی حکمت ِعملی اگر قابلِ عمل ہے تو اسے لازماً اپنایا جانا چاہئے کیونکہ عالمی مالیاتی ادارے کی سخت شرائط ملک لیے یقینی طور پر نئی مشکلات کا سبب بنیں گی اور اس کے نتائج ایک لمبی مدت تک پوری قوم کو بھگتنا ہوں گے۔ چیمبر آف کامرس کے اراکین سے گفتگو میں وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ’’میں خود بھی کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کا ممبر رہا ہوں اور یہ میرا گھر ہے‘‘۔ امید کی جانی چاہئے کہ ایوانِ صنعت و تجارت سے وزیر خزانہ کا یہ ذاتی تعلق حکومت اور نجی شعبے کے درمیان بہتر افہام و تفہیم کا باعث بنے گا اور اس کے نتیجے میں ایسی مفید معاشی پالیسیاں تشکیل پائیں گی جو قومی معاشی اہداف کے حصول میں نجی شعبے کی سرگرم شرکت کو ممکن بنائیں گی۔ یہ امر اطمینان بخش ہے کہ قومی معیشت میں نجی شعبے کا کردار آج کی دنیا میں جس قدر کلیدی اہمیت اختیار کر چکا ہے، وزیر خزانہ کو اس کا مکمل ادراک ہے، انہوں نے چیمبر کے ارکان سے اپنی گفتگو میں اس حقیقت کا اعتراف ان الفاظ میں کیا کہ ’’ اکیسویں صدی میں معیشت کا پہیہ نجی شعبہ چلاتا ہے لہٰذا ہم تجارت کو آسان بنانے کی کوشش میں ہیں اور اس کیلئے کئی بنیادی اقدامات کیے جا رہے ہیں‘‘۔ ایوانِ صنعت و تجارت کراچی میں جناب اسد عمر کا یہ انکشاف بھی اہلِ پاکستان کیلئے خوشگوار حیرت کا باعث ہے کہ موجودہ دورِ حکومت میں پاکستان کاروبار دوست ممالک کی رینکنگ میں 147سے 136ویں نمبر پر آ گیا ہے جبکہ حکومت اسے مزید بہتر بنا کر 100سے کم کے دائرے میں لے جانے کیلئے کوشاں ہے۔ معیشت کے حوالے سے یہ فی الواقع ایک ایسی نمایاں بہتری ہے جس پر حکومت مبارکباد کی حقدار ہے؛ تاہم عوام کیلئے اصل اہمیت اس بات کی ہے کہ غربت، مہنگائی، بے روزگاری، بچوں کی تعلیم کے بے تحاشا اخراجات اور علاج معالجے کی سہولتوں کا دسترس سے باہر ہونا جیسے جن مسائل نے ان کیلئے جینا دوبھر کر رکھا ہے، انہیں حل کیا جائے۔ اور نہایت خوش آئند بات ہے کہ وزیر خزانہ نے اس حوالے سے چیمبر کے اراکین پر حکومت کی اس سوچ کو ان الفاظ میں واضح کیا کہ ’’یہ ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ کمزور ترین طبقے کی مشکلات کم کرے اور ہم نے اپنے فیصلوں میں یہی کرنے کی کوشش کی ہے جس کی جھلک بجلی کی قیمت، گیس کی قیمت یا ٹیکس کے نظام پر کیے گئے فیصلوں میں آپ کو نظر آ رہی ہے‘‘۔ حکومت کے ان اقدامات کے مطلوبہ نتائج کس حد تک سامنے آئے، یہ ایک الگ موضوع ہے لیکن عوامی مشکلات کے بارے میں حکومت کی سوچ کا درست ہونا بہرحال واضح ہے۔ منی بجٹ کے حوالے سے وزیر خزانہ کا اصل نکتہ یہی تھا کہ صنعت کاروں اور تاجروں کیلئے یہ ایک خوش آئند تجربہ ہوگا کیونکہ اس کا مقصد نئے ٹیکسوں کے ذریعے حکومت کی آمدنی بڑھانا نہیں بلکہ کاروبار کیلئے آسانیاں پیدا کرنا ہے۔ وزیر خزانہ کی اس یقین دہانی کو درست تسلیم نہ کرنے کی بظاہر کوئی وجہ نہیں، لہٰذا امید ہے کہ تیئس جنوری کو پیش کیا جانے والا منی بجٹ قومی معیشت پر مثبت نتائج مرتب کرنے کا سبب بنے گا۔