سلامِ رخصت، چیف صاحب!

January 16, 2019

کل بروز جمعرات، چیف صاحب کا بھرپور دور، تاریخ کا حصہ بننے کو۔تاریخ بے رحم،بلاخوف وتقدس فیصلے صادر کرنے پر قادر۔ایسی قوم بد نصیب اور ادارے بد قسمت ،جب ادارےافراط و تفریط کا شکار ہوں۔ مایہ ناز قانون دان بابر ستار نے اسرائیلی سپریم کورٹ کے صدر اہرون باراک Ahroon Barak کی کتاب The Judge In A Democracy" "سے خوبصورت جملہ نقل کیا،’’ جب میں کسی ٹرائل بنچ پر بیٹھتا ہوں تومیرا اپنا ٹرائل ساتھ چل رہا ہوتا ہے‘‘۔

28دسمبر2016ء ،جناب ثاقب نثار کے چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے سے پہلے جنگ کے چھپنے والے کالم بعنوان ’’ویلکم چیف صاحب و جوڈیشل ایکٹوزم ‘‘سے چند فقروں کی تکرار کی معذرت،’’چند ہفتے پہلے، لاہور کے مقامی ہوٹل میں جسٹس میاں ثاقب نثارنے جوڈیشل ایکٹوزم پر اپنے تحفظات کا اظہارٹھونک بجا کر کیا ۔اب جبکہ چند دنوںمیں سپریم کورٹ کی سربراہی سنبھالنے کو، چیف جسٹس انتظامی سربراہ ضرور،عدالتی وزن و رائے برادر ججوں کے برابر ۔ سپریم کورٹ ایک آزاداورخودمختار ادارہ، آئین آزاد عدلیہ کا ضامن ،غیر معمولی تحفظ دیتا ہے جبکہ سپریم کورٹ نے آئین اور قانون کے ماتحت رہنا ہے۔ سپریم کورٹ ٹرائل کورٹ نہیں کہ براہ راست سزا دے سکے ماسوائے توہین عدالت کیس میں۔ آرٹیکل 184(3)سپریم کورٹ کو لا محدود و طاقت و اختیار دیتا ہے۔ آرٹیکل (3)184کے بے دریغ استعمال کا دوسرا نام ’’جوڈیشل ایکٹوزم‘‘ ہے۔ ماضی میںیہ آرٹیکل ماسوائے معدودے چندمواقع عرصہ تک ناآزمودہ،ساکت اورغیر فعال رہا۔ پچھلے چند سال سے فراخدلانہ استعمال دیکھنے کو ملا۔ بدقسمتی سے آرٹیکل 184(3)کا بے دریغ استعمال،عدالت عظمیٰ کی غیر جانبداری پر سوالیہ نشان اُٹھاتا ہے کہ عدالت پارٹی،گواہ اور وکیل کا روپ دھار لیتی ہے۔آرٹیکل199، ثبوت کا بوجھ درخواست گزار پر ڈالتا ہے جبکہ(3)184میں لامحدود اختیارات اس اصول سے استثنیٰ یعنی کہ صفائی کنندہ پر بھی ذمہ داری ڈال دیتا ہے۔پانامہ کیس میں، درخواست گزار اور عدالت عظمیٰ دونوں یہ کہتے سنے گئے کہ ’’صفائی کنندہ کو اپنی بے گناہی ثابت کرنا ہوگی‘‘، دنیا میں رائج بنیادی انسانی حقوق قوانین کی خلاف ورزی ہے۔چند دن پہلے، مقامی ہوٹل میں،لاہور وکلاء کے سامنے نامزد چیف جسٹس نے بغیر الفاظ چبائے، یہی کچھ فرمایا’’ ہمیںجوڈیشل ایکٹوزم کے ماحول سے باہر نکلنا ہوگا‘‘۔چیف جسٹس نے ’’جوڈیشل ایکٹوزم‘‘کو آڑے ہاتھوں لیا تو منسلک خرابیاں اور سقم اجاگر رکھے، ’’خوف کا شکار ہونگے نہ مصلحت کا۔ عدالتوں کاوقار بحال کریں گے۔ فیصلوں میں شفافیت نظر آئے گی‘‘۔نامزد چیف جسٹس کے غیر مبہم الفاظ حوصلہ دے گئے۔

ایسے حالات میں نامزد چیف جسٹس کی دو آبزرویشنز، جوڈیشل ایکٹوزم کو محدود رکھنا ہوگا اور کسی قسم کی مصلحت، دبائو کا شکار نہ رہنا، بادنسیم کا بھرپور جھونکا جانیں۔نامزد چیف صاحب ! آپ سے بہت امیدیں بندھ چکی ہیں۔ آئین پاکستان کی کئی دہائیوں سے دُرگت بن رہی ہے۔ اگر عزت مآب اگلے چھ ماہ میں آئین پاکستان کو اس کی اصلی روح کے مطابق نافذکر جائیں۔ قانون کی عملداری مؤثر بنا دیں تو تاریخ آپ کے دور کو سنہرے حروف سے لکھے گی‘‘۔

دوسال قبل لکھا کالم ،چیف صاحب سے امیدوں کا ایک انبارتھا،آج آس اُمیدیں پارہ پارہ۔ لب لباب اتنا کہ جناب چیف صاحب کا دور جوڈیشل ایکٹوزم سے بھرپور ، کئی نئے سیاسی اقتصادی بحران جنم دے چکا۔ کورٹ روم نمبر 1میں کل آخری دن،اگلے دن سے بے رحمانہ تجزیوں،بے لاگ تبصروںکا آغازرہنا ہے۔آخری دن سے پہلے ہی تشویشناک خبریں جڑ پکڑ چکیں۔جسٹس منصور علی شاہ کا تحریری فیصلہ سپریم کورٹ کے بنیادی و انتظامی ڈھانچے کے کنڈکٹ پرسوالیہ نشان چھوڑ چکا ۔کل ہی پولیس ریفارمز کمیٹی کا اجلاس ہوا، چار ججز غیر حاضر رہے،غیر معمولی واقعہ ہے۔اگر 18جنوری کوجناب کے ریفرنس میں چند ججز غیر حاضر رہتے ہیں تو پہلی دفعہ ہوگا۔جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا سپریم جوڈیشل کونسل میں ٹرائل اور معزولی کئی سوال چھوڑ گیا ہے۔ اگر جسٹس صدیقی کی معزولی ناکافی تھی تو جسٹس فرخ عرفان کے کیس کو انجام تک پہنچانے کے لیے کونسل کی جلدی اور پُھرتی نے چار چاند لگا ئے رکھے۔۔پچھلے ڈیڑھ سال سے 3/2 مخصوص جج انتھک روزانہ کی بنیاد پر 184(3) کے لیے مختص رہے۔تکلیف اتنی کہ آرٹیکل 8تا 28میں 10(A)ایک نگینہ،10(A) پامال رہا۔سپریم کورٹ کی سطح پر10(A)سے پہلو تہی، تکلیف دہ منظر تھا۔

نواز شریف، مریم نواز اور صفدر کی اسلام آباد ہائیکورٹ سے ضمانت نے یہی کچھ ثابت کیا کہ ٹرائل کورٹ فیصلوں کی کمزوریاں،سقم سامنے ہوںتو دو اپیلیں مدعی/مجرم کو تحفظ دیتی ہیں۔خواجہ آصف کی اسلام آباد ہائیکورٹ سے نا اہلی پر سپریم کورٹ کا فیصلہ معطل کرنا ،10(A) کی خوبیوں کی تصدیق ہے۔اقامہ کیس میں نواز شریف کی وزارت عظمیٰ سے معزولی اور پھر پاناما کیس کے پہلے فیصلے میں 5رکنی بنچ کے دو معزز ججوں نے جب نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ سے معزول کرنے کی سفارش کی تو سپریم کورٹ نے ٹرائل کورٹ کا کردار ادا کیا،نواز شریف کو اپیل کے فورم سے محروم رکھا۔ مقابلتاً چونکہ خواجہ آصف کیس میں اپیل کا حق موجودتھا۔آج خواجہ آصف موجود جبکہ نواز شریف کا خاتمہ بالخیر ہو چکا۔ایک وزیر اعظم سوموٹو پر ساری زندگی کے لیے سیاست سے نا اہل ہوچکا ہے۔پاناما کیس میں سپریم کورٹ کا نیب کو انکوائری یا تفتیش کی بجائے ریفرنس اور مقدمہ دائر کرنے کا حکم ، سپریم کورٹ کی نگرانی میں نواز شریف ٹرائل ،نئی نویلی انوکھی جوڈیشل تاریخ رقم ہوئی۔دیدہ دلیری سے 2018ء کا الیکشن عدالتی فیصلوں اور سوموٹو سے متاثر ہوا۔نواز شریف کی وزارت عظمیٰ سے معزولی ،سیاست سے دور رکھنا،الیکشن سے پہلے ن لیگی رہنماؤں کوپابند سلاسل کرنا سب کچھ184(3) کے فضائل ہی۔حکومت پنجاب کی الیکشن سے پہلے گو شمالی ضروری،کئی منصوبے ( اورنج ٹرین)184(3)کی برکات سے تعطل کا شکاررہے۔پنجاب کے ترقیاتی منصوبوں ، تعلیمی اداروں اور اسپتالوں،PKLIپر عدالتی و نیب کارروائیاں الیکشن سے پہلے لوگوں کو قائل کرنے کی کوششیں سمجھی گئیں۔ عام ووٹرز کو سمجھانا تھاکہ پنجاب حکومت نا اہل اور کرپٹ تھی۔دوسری طرف حنیف عباسی کیس،صوبہ KP میں میٹرو بس کا تتر بتر منصوبہ ،KPنیب ادارہ، خیبر بینک ،مالم جبہ اسکینڈل، بلین ٹریز سونامی اسکینڈل، ناگفتہ بہ اسپتالوں اورتعلیمی اداروں وغیرہ سے چشم پوشی رہی۔ بالآخرعوام کی آسودگی کے لیے 2018ء کے الیکشن میں حقیقی سچی جمہوریت اور تبدیلی آگئی۔یہ سب کچھ جناب چیف جسٹس آپ کے دور میں ہوا۔10سال بعد اصغر خان طرز کا کیس جب عدالتوں کے سامنے آئے گا تو2018ء کے الیکشن کا کچا چٹھا کھل کر سامنے ہو گا۔

عزت مآب! بس اتنا کہوں گا کہ آپ غیر متنازع بہرحال نہیں رہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)