بے وفا زندگی

January 16, 2019

محمد اسلم کی عمر صرف 48سال تھی، کاروبار کے سلسلے میں کبھی دبئی تو کبھی پاکستان کے مختلف شہروں میں بھاگ دوڑ میں مصروف رہتے، میری اسلم صاحب سے شناسائی واجبی سی تھی، ایک روز اچانک معلوم ہوا کہ اسلم صاحب بیمار ہوگئے ہیں اور ڈاکٹروں نے انہیں آخری اسٹیج کاکینسر تشخیص کیا ہے، کسی بھی بڑے کینسر اسپتال نے ان کے علاج پر آمادگی ظاہر نہ کی کیونکہ ڈاکٹروں نے انہیں صرف چند ماہ کا مہمان قرار دیا تھا اور اس اسٹیج پر مریض کے علاج کے آغاز سےاکثر جو باقی زندگی ہے وہ بھی جلد ہی ختم ہوجاتی ہے، لہٰذا ڈاکٹروں کے مطابق ان کے ساتھ اہل خانہ زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں اور انہیں نفسیاتی دبائو سے بچائیں، لیکن زندگی کی بے وفائی کے اصل واقعات یہاں سے شروع ہوتے ہیں۔

محمد اسلم بہاولپور کے رہائشی تھے، ان کی اہلیہ کا تعلق کراچی سے تھا اور وہ علاج کے سلسلے میں کراچی میں مقیم تھے، لہٰذا ان کی اہلیہ اور ان کے اہل خانہ ہی مریض کی تیمار داری میں مصروف تھے جس میںان کے سالے آصف صاحب جن کی انہی دنوں امریکا کی امیگریشن مکمل ہوئی تھی اور وہ بمع اہل خانہ امریکا جانے کی تیاریوں میں مصروف تھے، سب سے زیادہ محمد اسلم کی تیمار داری کررہے تھے اور روزانہ ہی انہیں کسی نہ کسی ڈاکٹر کے پاس یا اسپتال لے جایا کرتے۔

ایک دن معلوم ہوا کہ آصف صاحب اگلے چند دنوں میں امریکا روانہ ہونے والے تھے لیکن بہنوئی کی بیماری کے پیش نظر انہوں نے اپنی اہلیہ اور تینوں بچوں کو پہلے بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے، خود چند ماہ بعد امریکا روانہ ہوں گے، اسلم کی طبیعت بھی روز بروز بگڑتی جارہی تھی جبکہ آصف صاحب بالکل صحت مند اور چاق و چوبند تھے اور امریکا جانے کے حوالے سے بہت پرجوش بھی، لیکن کسی کو کیا معلوم تھا کہ ان کا امریکہ نہیں بلکہ اوپر جانے کا وقت آ چکا تھا، ایک روز صبح 5بجے انہیں سینے میں شدید درد کی شکایت ہوئی، اسپتال میں ابتدائی طبی امداد کے دوران ہی ایک اور ہارٹ اٹیک ہوا اور آصف صاحب اس فانی دنیا کو چھوڑ کر ابدی دنیا سدھار گئے۔

یہ خاندان جو پہلے ہی ایک کینسر کے مریض کی زندگی کے آخری دن گن رہا تھا اس پر ایک اور صدمے کا پہاڑ ٹوٹ پڑااور اب اسلم صاحب کی تیمار دار ی کی ذمہ داری ان کے بھانجے 30سالہ محمد شجاع پر آ گئی، شجاع بھی شادی شدہ اور چار بچوں کا باپ تھا، اس نے بھی اسلم صاحب کی تیمارداری میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی، وہ بھی پاکستان سے باہر جانے کی کوششوں میں مصروف تھا اور کئی دفعہ مجھ سے جاپان آنے کی خواہش کا اظہار کرچکا تھا تاہم کچھ کاغذی کمزوریوں کے سبب وہ اب تک جاپان کا ویزہ نہیں لگوا سکا تھا۔

ایک روز وہ حیدر آباد سے کراچی آرہا تھا، فون پر اپنی اہلیہ سے بات چیت بھی کر رہا تھا کہ اچانک فون بند ہوگیا، پھر دو گھنٹے بعد اسی فون سے کال آئی کہ آپ کے شوہر کی گاڑی کا شدید ایکسیڈنٹ ہوا ہے، وہ اب دنیا میں نہیں رہے، پے درپےدو جوان اموات نے اس خاندان کی کمر توڑ کر رکھ دی جبکہ اسلم جو پہلے ہی زندگی کے دن گن رہے تھے وہ بھی شدید صدمے سے دو چار تھے، ان واقعات میں دنیا والوں کے لیے سبق تھا کہ ایک فرد جسے ڈاکٹر نے جواب دے دیا تھا، وہ زندگی سے جنگ لڑ رہا ہے اور جو اس کی تیمارداری میں مصروف صحت مند افراد تھے وہ اس دنیا سے انتہائی کم عرصے میں رخصت ہوگئے، محمد اسلم آج بھی بہاولپور میں کینسر کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں۔

اسی دوران مجھے جاپان کی معروف سماجی شخصیت حاجی انعام الحق کے ذریعے معلوم ہواکہ جاپان میں مقیم سینئر پاکستانی اور معروف سماجی شخصیت مرزا عابد کینسر کے موذی مرض میں مبتلا ہیں اور کینسر کا آخری اسٹیج ہے، مرزا عابد سے میرے ہمیشہ ہی اچھے تعلقات رہے ہیں، لہٰذا فوری طور پر ان کی عیادت کا فیصلہ کیا اور گزشتہ روز حاجی انعام الحق کے ساتھ اسپتال پہنچا، مرزا عابد کا چہرہ اسی طرح ہشاش بشاش تھا لگتا نہیں تھاکہ وہ اس خطرناک بیماری کے آخری اسٹیج پر ہیں جبکہ جاپان بھر سے کمیونٹی کی شخصیات ان کی عیادت کے لیے اسپتال تشریف لارہی تھیں۔

مریض کی عیادت کے حوالے سے چند انتہائی اہم احادیث کا مطالعہ بھی کیا اور چاہتا ہوں کہ تمام قارئین بھی پڑھیں اور ضرور اپنے قریبی رشتہ داروں اور دوست احباب کی بیماری کی حالت میں عیادت کریں اور ان کو درپیش مسائل کے حل میں کردار ادا کریں۔

مریض کی عیادت کے حوالے سے حدیث شریف ہے کہ رحمتِ عالمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بروز حشر فرمائے گا ،اے آدم کے بیٹے! میں بیمار ہوگیا تھا تو نے میری بیمار پرسی نہ کی، وہ عرض کرےگا، اے باری تعالیٰ میں تیری کیسے بیمار پرسی کرتا؟ تو رب العالمین ہے، اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تجھے معلوم نہیں تھا کہ فلاں بندہ بیمار ہوگیا تھا، تونے اس کی بیمار پرسی نہ کی، خبردار تجھے معلوم ہونا چاہئے کہ اگر تو اس کی بیمار پرسی کرتا تومجھے اْس کے پاس پاتا۔

حضرت ثوبانؓ حضور اقدس ﷺسے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا کہ مسلمان جب اپنے مسلمان بھائی کی مزاج پرسی کرتا ہے تو وہ جنت کے پھل چننے میں مصروف رہتا ہے یہاں تک کہ وہ واپس آجائے۔

رسول اکرم ﷺ فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کو دوست رکھتے ہیں تو اس کو ایسی بلا میں مبتلا فرماتے ہیں جس کی دوا نہ ہو، پس اگر وہ صبر کرے تو اس کو چن لیتے اور اگر راضی رہا تو برگزیدہ کر دیتے ہیں۔

عیادت سے متعلق شرعی احکام یہ ہیں کہ مریض کے پاس جائیں اور اس کی مزاج پرسی کے بعد چند لمحات بیٹھیں اور واپس آجائیں تاکہ تیمارداروں کو مریض کی تیمارداری میں کچھ رکاوٹ نہ ہو، ہاں اگر مریض یا تیمارداروں کا اصرار ہو تو رک سکتے ہیں اور مریض کی پیشانی پر داہنا ہاتھ رکھ کر آیاتِ شفا اور سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کریں اور تسلی دیں کہ ان شاء اللہ، اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ بہت جلد شفا یاب ہوجاؤ گے۔ آمین

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)