بلاول آگیا میدان میں

December 29, 2012

چوٹی کے سردار فاروق احمد خان لغاری نے صدر پاکستان کا منصب سنبھالنے کے بعد فورٹ منرو میں کھلی کچہری کے دوران بلوچ بھائیوں کو خوشخبری سنائی کہ ان کی بھیڑ بکریوں کے چارے کے لئے آسٹریلیا سے جدید طرز کا بیج منگوایا جا رہا ہے جو پہاڑیوں پر گرائیں گے اور جلد روئیدگی ہوگی۔ ایک نوجوان اٹھا اور بولا! ”سردار صاحب آپ نے ہمیں اور ہماری اگلی نسلوں کو بھی بھیڑبکریاں چرانے کے قابل سمجھا، تعلیم، صحت اور روزگار کی جدید سہولتیں آپ کے دور حکمرانی میں بھی مفقود رہیں گی؟“
بلاول بھٹو زرداری نے ملک میں سیاست کا آغاز کردیا، اللہ تعالیٰ انہیں اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ مخدوم امین فہیم، مخدوم یوسف رضا گیلانی، جہانگیر بدر اور رضا ربانی میں سے کوئی کیوں اس منصب کے لائق نہیں؟ یہ پارٹی جانے، بھٹو خاندان اور یہ تجربہ کار، جاگیردار، وڈیرے اور علم و دانش کے کوہ گراں جانیں، کسی کو اس سے کیا لینا دینا، جب یہ مخدوم اور وڈیرے برخوردار کی مٹھی چاپی میں مصروف ہیں تو کارکن بے چارے کس باغ کی مولی کہ کچھ بول کر اپنا حشر ناہید خان جیسا کرائیں، ویسے بھی یہ جمہوری اسلامی پاکستان ہے جہاں موچی کا بیٹا موچی اور سردار کا بیٹا سردار ہوتا ہے۔ یہ ایران نہیں کہ امام خمینی اپنے بیٹے کی بطور صدر نامزدگی اس بنا پر مسترد کردیں کہ پورے ایران میں صرف میرا بیٹا لائق، دانا اور تجربہ کار سیاستدان نہیں کہ اسے یہ اعلیٰ ترین منصب سونپ دیا جائے، کوئی اور ڈھونڈو۔
البتہ غیر ملکی اداروں سے تعلیم اور اپنے شعبے کے ماہر اساتذہ سے تربیت حاصل کرکے وطن واپس لوٹنے والے اس خوش قسمت نوجوان کی پہلی سیاسی تقریر سن کر مجھے گفتگو کے پوائنٹس دینے، فیض صاحب کے اشعار سے مزین تقریر لکھنے اور اس کی مشق کرانے والوں سے گلہ ضرور ہے کہ انہوں نے بیسویں صدی کی آخری تین دہائیوں موضوعات پر تقریر رٹا کر اکیسویں صدی کے ایک ترقی پسند نوجوان کو روبوٹ بنا دیا جو لاکھوں لوگوں کے سامنے وہ باتیں دہرانے پر مجبور ہے جو اس نے دوران تعلیم پڑھیں نہ سنیں، گھسی پٹی، ازکار رفتہ، جذباتی اور خلاف واقعہ۔
برطانیہ میں دوران تعلیم بلاول نے رول آف لاء، روشن خیال سماج، سائنسی ترقی، عدل و مساوات اور شفاف جمہوریت کا مشاہدہ کیا۔ سیاسی رواداری او عدلیہ کے سامنے ہر چھوٹے بڑے کو سرنگوں ہوتے دیکھا، کسی سیاستدان کو نوحہ گری کرتے، اپنی نااہلی اور نالائقی کا ملبہ عدالتوں پر گراتے اور تعصبات و منافرت کی آبیاری کرتے کبھی نہ پایا ہوگا۔ لندن میں بیٹھ کر اس نے اس ملک کو تنگ نظری، جہالت، پسماندگی، کرپشن اور بدانتظامی سے پاک کرنے کے خواب دیکھے ہوں گے مگر واپس آتے ہی بڑوں نے، سیاست کے پیران تسمہ پا نے اس پاک طینت، معصوم نوجوان کو بھی وہی طرز گفتگو اپنانے، قبائلی طرز کی سیاست کرنے اور اپنے بڑوں کا بوجھ اٹھانے پر مجبور کردیا جس کی وجہ سے یہ ملک پسماندگی اور زوال کی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔
بلاول کے لب و لہجے اور جذباتی انداز گفتگو میں ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی جھلک تو تھی لیکن موضوعات میں ترو تازگی، روح عصر اور مستقبل بینی کا جذبہ؟؟؟بلاول چاہتے تو بجلی وگیس کی بندش، تعلیم و صحت کی سہولتوں کے فقدان، شکارپور، جیکب آباد، سکھر اور کشمور میں خسرے سے 80 بچوں کی ہلاکت اور کراچی و بلوچستان کی لاقانونیت پراظہار خیال کرتے اور حکومت کی مسلسل بے نیازی کوہدف تنقید بناتے مگر ان کا سارا زور یہاں عدلیہ کے خلاف صرف ہوا حالانکہ شہید بی بی کے قاتلوں کو سزا دلوانا حکومت کی ذمہ داری ہے اور وہی اب تک قاتلوں کی گرفتاری میں رکاوٹ ہے ”قاتل لیگ“ شریک اقتدار ہے تو ذمہ دار عدلیہ کیسے؟ مگر بلاول کو کون بتائے کہ اس حکومت کی بُکل میں چور ہیں اور والد صاحب اس حکومت کے سربراہ۔
یہی باتیں عمران خان یا علامہ طاہرالقادری کرتے تو ان پر ہزار طرح کے اعتراضات ہوتے ان کی معقول، مدلل اور عوام دوست باتوں پر بھی تنازع کھڑا کیا جارہا ہے، جرم ان کا یہ ہے کہ ایک کسی جاگیردار کی اولاد نہیں اور دوسرا غریب آدمی کا بیٹا ہے یا پھر اس لئے گردن زدنی کہ خاندانی قیادت اور موروثی سیاست کے خاتمے کی بات کرتے اور اس مکروہ اجارہ دارانہ نظام کو جڑسے اکھاڑ پھینکنے کے درپے ہیں۔ جو نہ تو روایتی سیاستدانوں کو ہضم ہوتی ہیں اور نہ ان کے بہی خواہ دانشوروں کو۔
البتہ کسی جاگیردار، وڈیرے اور اجارہ دار کا بیٹا، پوتا، نواسہ جو کہے، جس قومی ادارے کے بخیے ادھیڑے، پرانی سیاسی محاذ آرائی کو بیدار کرے اور1970ء کے عشرے کے گھسے پٹے نعرے لگا کر غریب عوام کا ذہنی استحصال کرے سب روا ہے سب بڑے بوڑھے سردھنتے اور صدقے واری جاتے ہیں۔ تبھی سیاست و اقتدار نہیں، دانش و بصیرت پر بھی مخصوص طبقے کی اجارہ داری ہے۔ جب تک اس ملک کے طول و عرض میں غربت و جہالت کے ڈیرے ہیں اور وڈیرہ شاہی کا راج بیسویں بلکہ سترہویں صدی کے طرز سیاست اور انداز حکمرانی کو کوئی خطرہ نہیں۔ سب مل کر نعرے لگائیں۔ بلاول آگیا میدان میں، ہے جمالو۔