طالبانِ پاکستان کی مذاکرات پر آمادگی

December 31, 2012

پاکستانی طالبان کے امیر حکیم محسود نے اپنے حالیہ جاری کردہ وڈیو پیغام میں حکومت سے مذاکرات پر آمادگی کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ”وہ ہتھیار نہیں پھینکیں گے“ اس پیغام کے ذریعے طالبان پاکستان کی قیادت کے تازہ ترین سیاسی خیالات، مذاکرات کے لئے ان کی شرائط اور آئندہ کے ارادوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے طالبان کی چالیس منٹ دورانیے کی منظر پر آنے والی وڈیو تقریر دہشتگردی کے بڑھتے واقعات کے تناظر میں بہت اہم ہے۔ اس سے بھی زیادہ اس کی اہمیت اس لئے ہے کہ یہ وڈیو پیغام طالبان پاکستان کے اب تک جاری رہنے والے شدید رویے میں تبدیلی کا ایک واضح عندیہ ہے۔ شاید اس لئے کہ اے این پی نے اپنے رہنما کی شہادت کے بعد بھی صبر و تحمل اور ہوش کا دامن نہیں چھوڑا ۔ طالبان سے مذاکرات کی پیشکش کی، وگرنہ جنوبی وزیرستان میں تواتر سے پاکستان کے ملٹری آپریشنز اور پورے وزیرستان میں امریکہ کے مسلسل ڈرون حملوں کے مقابل تو طالبان کے آپریشنز نے تو انسانی زندگی کے جتنے المیوں کو جنم دیا اس نے پاکستانی معیشت، معاشرت، قومی مورال اور ہمارے بین ا لاقوامی امیج کو جو ناقابل تلافی نقصان پہنچایاہے اس کا اب ختم ہونا ہماری معمول کی قومی زندگی کی بحالی کے لئے ناگزیر ہوچکا ہے۔ یہ بھی اب ثابت شدہ امر ہے کہ طالبان کے رویے میں تبدیلی ہی وزیرستان سمیت پاکستان میں معصوم پاکستانیوں کی ہلاکت ،متاثرہ خاندانوں کا مسلسل گہرے صدمات سے دوچار ہونا اور بچوں اور خواتین کے دنیاوی سہاروں کے اٹھ جانے کے مسئلے کے حل کا نقطہ آغاز ہوگا۔ جنوبی وزیرستان میں پاکستانی فوجی کارروائیاں اور امریکہ کے وزیرستان میں جاری بلا امتیاز بے رحم ڈرون حملے تو افغانستان کی طرح پاکستان میں بھی طالبان کی مزاحمت کو ختم نہ کرسکے۔ بس ان حملوں سے امریکہ اس لحاظ سے ضرور مطمئن ہے کہ اس کے ڈرون حملوں کا ہولناک ردعمل پاکستان کے شہروں میں ہلاکت خیز ہوتا ہے، جہاں (افغانستان) یہ امریکیوں کے لئے ہلاکت خیز ہوتا ہے وہ امریکیوں نے افغان طالبان سے مذاکرات کا آغاز کردیا ہے اور اس پر بڑی محنت کی گئی ہے کیونکہ طالبان کی ناختم ہونے والی مزاحمت سے بے زار ہو کر واشنگٹن کا بل سے انخلاء کا تو اعلان کرچکا ہے لیکن افغانستان میں اس کے مفادات تو ختم نہیں ہوئے سو وہ کسی نہ کسی درجے پر طالبان سے مفاہمت کرنے پر مجبور ہے جب وہ ہے تو ہم کیسے ہمیشہ کے لئے اپنے طالبان سے یہ جنگ جاری رکھیں؟۔
اب جبکہ پہلی مرتبہ طالبان پاکستان نے از خود حکومت پاکستان سے مذاکرات پر آمادگی کا اظہار کیا ہے تو اس کے ساتھ ہی حکومت پاکستان کے لئے یہ بڑا چیلنج پیدا ہوگیا ہے کہ طالبان کی کڑی شرائط اور امیر طالبان پاکستان کی تقریر کے ناقابل قبول مندرجات کے باوجود طالبان پاکستان کی قیادت میں پیدا ہونے والی لچک نے حکومت پاکستان کے لئے یہ چیلنج پیدا کردیا ہے کہ وہ طالبان میں پیدا ہونے والی لچک کو برقرار رکھ کر طالبان سے مذاکرات کا دروازہ کھولے اور ان کی لچک میں اضافے کے اہداف بنائے۔ بلاشبہ حکومت اس وقت اپنی انتظامی ذمہ داریوں سے زیادہ (الیکشن کے تناظر میں) سیاسی و انتخابی معاملات میں تیزی سے الجھتی جارہی ہے لیکن وہ جاتے جاتے بھی اپنی حکومتی حیثیت میں پابند ہے کہ وہ ملک کودہشتگردی سے نجات دلانے کے لئے اتنی اہم پیش رفت کو فراموش نہ کرے اس کا تقاضا ہے کہ وہ طالبان کے امیر کی وڈیو تقریر کا فوری اور مثبت رسپانس ضرور دے۔
اس معاملے میں خیبر پختونخوا کی حکومت کا فوری ردعمل قابل تحسین ہے جس نے قریبی پس منظر میں اپنے اہم رہنما کی شہادت اور وڈیو تقریر میں اے این پی کو مسلسل ہدف بنائے رکھنے کے بیان کے باوجود طالبان کے اقدام کو مثبت قرار دیا ہے اور طالبان کو تجویز کیا ہے کہ”وہ خلاف روایات ہتھیار نہ پھینکیں لیکن تشدد ترک کردیں“۔ صوبائی حکومت کا ردعمل میں مذاکرات کی پیشکش قبول کرنا خوش آئند ہے لیکن اصل ذمہ داری وفاقی حکومت کی ہے کہ وہ مذاکرات کے لئے کھلے دل سے آمادہ خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کی طرح طالبان سے مذاکرات کا عمل شروع کرنے کے لئے فوراً اپنی ذمہ داری پوری کرے،جو سیاسی حلقے، صحافی اور دانشور طالبان کی شرائط کو قابل عمل تصور نہیں کرتے ہیں ان سے بھی مودبانہ گزارش ہے کہ وہ اس بنیاد پر کسی صورت مذاکرات کی پیشکش سے بنے والی فضا کو ڈیفوژ نہ ہونے دیں بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کریں کہ سختی سے مزاحمت کرتے طالبان کے رویے میں بنیادی تبدیلی بشیر احمد بلور کی شہادت کے بعد ایک اہم پیش رفت ہے اسے اس لئے مسترد نہ کیا جائے کہ پہ کڑی شرائط پر مشتمل ہے۔ ایسے تنازعات جس میں فریقین برسوں ایک دوسرے کے خلاف مزاحمت کریں جب مذاکرات پر نیم آمادہ ہوتے ہیں تو کڑی شرائط کے ساتھ ہی ابتدائی عندیہ دیتے ہیں۔ ایسی شرائط کو نمایاں کرکے ہی دوسرے فریق کو بھی ٹیسٹ کیا جاتا ہے کہ وہ مذاکرات میں کتنا سنجیدہ ہے یا اس کی کتنی ضرورت محسوس کی ہے۔ حکیم اللہ محسود نے بھی اپنی زیر بحث وڈیو تقریر میں مذاکرات کی سنجیدگی کی بات کی ہے ۔پہلی ضرورت تو یہ ہے کہ حکومت اس پر اپنے ردعمل کا اظہار کرے اس کے علاوہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں ، میڈیا اور تجزیہ نگاروں کو بھی چاہئے کہ وہ طالبان پاکستان کی مذاکرات پر آمادگی کو آگے بڑھانے کے لئے حکومت کی مدد کریں اور ہوسکے تو طالبان سے اپنے طور پر رابطے بھی کریں کہ بہرحال وہ ریاست پاکستان کے سیٹ اپ کی ایک سیاسی یا عسکری مزاج کی قوت ہے جو قومی دھارے سے نکل کر اس کے خلاف مزاحمت کررہی ہے۔ وہ اس میں کتنے غلط یا درست ہیں اس کا احساس تو فریقین مذاکرات میں ہی دلا سکتے ہیں۔ اسی طرح طالبان پاکستان بھی ایک مرتبہ حکومت پاکستان کو سنیں تو سہی کہ وہ ان کی بابت کیا سمجھتی ہے اور کہاں تک آسکتی ہے۔ بہت بہتر ہوگا کہ مذاکراتی عمل میں افغان طالبان کو بھی شامل کیا جائے خواہ ابتداء میں حکومت پاکستان اور افغان طالبان کے مذاکرات الگ ہی ہوں لیکن یہ نہ بھولنا چاہئے کہ تحریک طالبان پاکستان، افغان طالبان ہی کی آف شوٹ ہے اس ضمن میں امیر جماعت اسلامی جناب قاضی حسین احمدنے کہا ہے کہ ”افغان طالبان کا پاکستان میں بھی دفتر کھلنا چاہئے اس کے نتیجے میں پاکستانی طالبان کے زیر اثر اور ڈسپلن میں آجائیں گے، قطر میں امریکہ نے طالبان کو دفتر مہیا کیا ،پیرس، جاپان میں مذاکرات کررہا ہے، اس لئے ہمارے بھی کوئی چینل کھولنے کی ضرورت ہے کسی اور جگہ بیٹھ کر طالبان کی ذمہ داری کی خبریں حتمی نہیں ہوسکتیں“ امریکہ نے9/11تناظر میں جو جنگ دہشتگردی کے خلاف شروع کی تھی ایک عشرے کے بعد یہ ثابت ہوچکا ہے اس کو جیتنے کے ہتھیار گولہ بارود، ڈرون اور ہوائی حملے یا خود کش حملے نہیں اس کا ہتھیار فقط مذاکرات(ابلاغ) ہی ہے۔