صرف 15لاکھ افراد ٹیکس دیتے ہیں؟

February 03, 2019

میں نے لند ن میں اپنے ایک پاکستانی دوست سے پوچھا جو گزشتہ 50سال سے وہاں رہائش پذیر تھا کہ تم باقاعدگی سے انکم ٹیکس جس کی زیادہ سے زیادہ شرح 55فیصد ہے کیوں ادا کرتے ہو۔ اور ساتھ ساتھ سیلز ٹیکس (Vat)جو17فیصد ہے وہ بھی اداکرتے ہو تو اُس نے کہا کہ ہماری حکومت ہم سے ٹیکس وصول کرکے ہم پر ہی خرچ کرتی ہے۔ مثلاً ہمارے بچوں کے لئے ہر علاقے میں اسکول، کالج بنائے جاتے ہیں تاکہ ہمارے بچے اچھی تعلیم اپنے اپنے گھروں کے نزدیک مفت حاصل کرسکیں۔ ہر علاقے میں پارک اور کھیل کے میدان بھی لازمی بنائے جاتے ہیں تاکہ ان کی صحت اچھی رہےاور وہ کھلے میدان میں مختلف کھیل‘ کھیل سکیں۔ یہی نہیں مفت علاج و معالجہ کی سہولت ہر علاقے میں جگہ جگہ موجود ہوتی ہے تاکہ مریض دُور دراز علاقوں میں نہیں جائیں اور اپنے ہی علاقے میں اسپتالوں میں علاج کرواسکیں۔ اس کے علاوہ خاص خاص بیماریوں کے بڑے بڑے اسپتال بھی موجود ہیں۔ ہر باشندہ ان سے مفت علاج کراسکتا ہے۔ اس کیلئے حکومت ہر شخص کا اندراج کرکے اُس کا ریکارڈ رکھتی ہے اور ہر آنے والے موذی مرض کی پیشگی اطلاع بھی دیتی ہے۔ ساتھ ساتھ بڑھتی عمر کے پیش نظر ہر6ماہ بعد اُن کو آگاہ کرتی رہتی ہے کہ اس مرض کا چیک اپ بھی کرواتے رہیں اگر آپ کی نوکری چھوٹ جائے اور آپ بے روزگارہوجائیں تو باقاعدہ آپ کو بے روزگاری الائونس بھی دیتی ہے۔ اگر کسی کے پاس رہنے کی جگہ نہ ہو تو وہ اُس کی رہائش کا بھی بندوبست کرتی ہے اگر کوئی مریض چل کراسپتال نہیں جاسکتا تو اُس کو لانے لے جانے کا بھی بندوبست کرتی ہے۔ الغرض حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر باشندے کے جان ومال کی حفاظت کرے۔ کسی کے ساتھ زیادتی ہو تو اُس کو مفت انصاف فراہم کرے۔ یہاں کی پولیس ایماندار ہے، رشوت خوری کو بہت بُرا سمجھا جاتا ہے اور وہ قابلِ جرم بھی ہے۔ یہ تمام سہولتیں جب ہی ممکن ہیں جب ہم خود پورا ٹیکس ادا کریں تاکہ حکومت ہمارے ہر بُرے وقت میںکام آسکے۔ البتہ بچوں کی چیزوں کھلونوں اور غذا اور ادویات پر کوئی بھی Vatٹیکس وصول نہیں کیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کوئی مانگنے والا نہیں ملتا۔ یہاں جرائم کی شرح کم ہے اور 100فیصد مجرموں کو سزائیں بھی ملتی ہیں۔ ہر شخص خود بھی قانون کی پابندی کرتا ہےاور دوسروں کو بھی پابندی کرنے کی تاکید کرتا ہے۔ اتفاق دیکھیں یہ سب کچھ اسلام نے آج سے 15سوسال پہلےمسلمانوں کے لئے قانون بنایاتھا جس پر آج مہذب دنیا والے عمل کررہے ہیں اور خوش حال ہیں۔ آج ہم اس کا موازنہ مسلمان ملکوں سے کریں تو ایسا نظام نظر نہیں آئے گا۔ جس کی وجہ سے 90فیصد دنیا کے تیل، گیس اور دیگر معدنیات کے ذخائرکے باوجود مسلمان ممالک غربت، معاشی اور اخلاقی بد حالی کا شکار ہیں۔ آج ہی کے اخبارات کی ایک جھلک دیکھیں، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو ایف بی آر نے بتایا کہ پاکستان میں ایک فیصد سے بھی کم افراد یعنی صرف 15لاکھ افراد ٹیکس دیتے ہیں۔ ہمارا ٹارگٹ 60لاکھ افراد کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا ہے۔ مگر ہم ان افراد کو ٹیکس کے نیٹ میں نہیں لاسکے۔ اگر ہم اس خبر کی تہہ میں جائیں تو معلوم ہوگا یہ صرف پروپیگنڈہ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جس کا بچہ بچہ ٹیکس دیتا ہے۔ خود حکومت نے بتایاکہ ہم 47ٹیکس وصول کر رہے تھے اور اب صرف 17ٹیکس وصول کریں گے۔ ہم جو چیز بھی امپورٹ کریں ہم سے ٹیکس کے علاوہ انکم ٹیکس ایڈوانس وصول کر لیا جاتا ہے جبکہ دنیا میں صرف انکم پر ٹیکس لیا جاتا ہے۔ یہ ٹیکس اور سرچارج کس سے وصول ہوتا ہے۔ ظاہر ہے امپورٹر خریدار سے معہ اپنے نفع وصول کرلیتا ہے۔ اسی طرح بجلی، گیس کے بلوں میں ہرقسم کے ٹیکس کے علاوہ اضافی سرچارج کون ادا کررہا ہے۔ پاکستان میں ادویات کے علاوہ ہر بننے والی اشیاء پر 18فیصد سیلز ٹیکس ہر خریدار کو ادا کرنا پڑتا ہے۔ ہر ہر قدم پر صوبائی اور مرکزی حکومت نے اپنے اپنے ٹیکس لگا رکھے ہیں۔ یاد رہے یہ ٹیکس دیگر ممالک میں نہیں لئے جاتے۔ پھر اسکے برعکس اتنے بالواسطہ ٹیکس وصول کرنے کے بعد آج ہمارے ملک میں صاف پینے کا پانی اور بنیادی ضروریات تک میسر نہیں۔ مظلوموں کو 10دس سال تک انصاف کیلئے دربدر ہوکر بھی انصاف نہیں ملتا۔ لاکھوں مقدمات برسوں سے التوا میں پڑے ہیں۔ معصوم افراد پولیس کے ہاتھوں دن دہاڑے قتل ہو جاتے ہیں اور معاملہ مک مکا کا کردیا جاتا ہے۔ چند دن میڈیا کی زینت بنتا ہے ۔ مجرم عادی مجرم بن کر چھوٹ جاتا ہے۔ معاشرہ نفسا نفسی کا شکار ہے۔ سیاستدان خود ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ایک دوسرے کا مقابلہ ہو رہا ہے کہ کون کتنے کھرب کھا چکا ہے۔ اور خود کو مظلوم بتا رہا ہے۔ پھر کہتے ہیں فائلر اور نان فائلر کی تکرار جاری ہے۔ قوم کو بتایا جائے کون ہے جس نے بغیر ٹیکس شدہ اشیاء مارکیٹ سے خریدی ہو ں۔ جب حکومت نے دیکھا کہ لوگ ڈائریکٹ ٹیکس نیٹ میں نہیں آ رہے ہیں تو اُس نے 47قسم کے ٹیکس عوام پر خاموشی سے مسلط کرکے شور مچادیا ہے کہ صرف 15لاکھ افراد ٹیکس دیتے ہیں حتی کہ بچوں کی اشیاء اور کھانے پینے کی اشیاء پر بھی ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے۔ یہ کون ادا کرتا ہے قوم کو بتایا جائے۔