انسانی اسمگلنگ اور بردہ فروشی!

March 06, 2016

گردہ چوری، بَردہ فروشی اور انسانی اسمگلنگ کا کاروبار کرنے والے سب سے پہلے اپنا ضمیر، ایمان اور شرفِ انسایت بیچتے ہیں اور پھر وہ یہ مذموم دھندے شروع کرتے ہیں۔ یہ لوگ کیسی قیمتی متاع بیچ کر کتنا معمولی نفع کما رہے ہیں، بلاشبہ یہ سراسر خسارے کا سودا ہے۔
گزشتہ دنوں یہ خوش آئند خبر تھی کہ ایف آئی اے نے ملک بھر میں انسانی اسمگلروںکے خلاف گھیرا تنگ کردیا ہے۔ پشاور،لاہور ،کراچی اور دیگر علاقوں میں کارروائی کے دوران کئی انسانی اسمگلروںکو گرفتار کرکے غیر قانونی پاسپورٹ،ہوائی جہازوں کے ٹکٹ اور دیگر جعلی دستاویزات بر آمد کرلی ہیں۔قارئین! پس منظر کے طور پر یاد رکھیں کہ زمانہ جاہلیت میں جس طرح انسانوں کی خرید وفروخت کی منڈیاں سر عام لگا کرتی تھیں بالکل اسی طرح یہ کارو بار آج بھی جاری و ساری ہے۔ بس اتنا ہو اہے کہ اس کے طور طریقے اور انداز بدل گئے ہیں بلکہ جدّت اختیار کرگئے ہیں۔ اسلام کے آفاقی نظام نے دور ِجاہلیت کے تمام رسم ورواج مٹادئیے تھے۔ کسی بھی آزاد آدمی کی خریدو فروخت کی تو سرمو بھی گنجائش نہ تھی اور صدیوں سے جاری غلامی کے نظام میں بھی حُسن ِسلوک اور ان کو آزاد کرنے پر غیر معمولی اجر کی نوید سنا کر بڑی حد تک تخفیف کردی گئی تھی۔ اقوام متحدہ کے چارٹر میں بھی طے ہے کہ نہ تو انسانوں کی منڈیاں لگ سکتی ہیں اور نہ ہی انسان کے اعضاء کی خرید وفروخت کی اجازت ہے۔ دنیا کے اکثر ممالک کے قانون کے مطابق عطیہ کی صورت میں حاصل کردہ گردے کی مریض کے جسم میں پیوند کاری کی اجازت ہے لیکن سرعام بیچنا بہر طور ممنوع ہے۔ ویسے تو پوری دنیا میں بچوں کی اسمگلنگ اور خرید وفروخت جاری ہے جیسا کہ بچوں کے حوالے سے انسانی حقوق کے بین الاقوامی ادارے ہیومن رائٹس واچ نے رپورٹ جاری کی ہے۔ اقوام متحدہ نے ایسے تین لاکھ بچوں کا تذکرہ کیا ہے جو فوج، باغیوں یا مسلح گروہوں کے پاس بطور سپاہی کام کررہے ہیں۔ ہیومن رائٹس کے مطابق ان بچوں کی اوسط عمر 13 سے 17 سال ہے تاہم 8 سال کے بچوں کو بھی جنگوں میں جھونک دیا جاتا ہے۔ ان معصوم بچوں کو ان کے گاؤں سے اغوا کرکے پچاس سے زائد ان ملکوں میں بطور مسلح چھاپہ مار کے استعمال کیا جاتا ہے جہاں مسلح تصادم جاری ہے۔ یہ بچے جنگ میں اسلحہ اٹھانے، بارودی سرنگوں کا سراغ لگانے، خودکش حملوں میں حصہ لینے، جاسوسی اور پیغام رسانی جیسے کام کرتے ہیں۔ ان بچوں پر ہولناک تشدد بھی کیا جاتا ہے۔ پاک وطن میں آج کل انسانی اسمگلنگ بلکہ ایک ایک انسانی عضو کی خرید وفروخت کا سلسلہ عروج پر ہے۔
انسانی اسمگلروںکے باعث پاکستان کو دنیا بھر میں خفت اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔گزشتہ دنوں ناقص اور جعلی سفری دستاویزات کے سبب کئی پاکستانیوں کو مغربی ممالک سے بے خل کیا جا چکا ہے۔ ان حالات میں اس مافیا کے خلاف بھر پور کارروائی وقت کی اہم ترین ضرورت بن چکی ہے۔انسانی اسمگلنگ کے اس مکروہ دھندے میں خفیہ ہاتھوں کو بے نقاب اور ملوث عناصر کو کیفر کردار تک پہنچا نے سے ہی اس قسم کے واقعات کی روک تھام ممکن ہوسکے گی۔ملک بھر میں انسانی اسمگلنگ بلکہ ایک ایک انسانی عضو خصوصاً گردوں کی خرید وفروخت کا مکروہ دھندہ ڈنکے کی چوٹ پر جاری ساری ہے۔ گردے بیچنے کا کاروبار تو ایک منظم صورت اختیار کرچکا ہے۔ اب تو حال یہ ہے کہ اسکول سے گھر جاتے بچوں کو گردہ فروشوں کا منظم اور بااثر گروہ بہلا پھسلا کر اٹھالیتا ہے پھر انہیں گاڑی میں بٹھاکر نشہ آور چیزیں دے کر بے ہوش کردیاجاتا ہے اور جب انہیں ہوش آتا ہے تو گھر کے اردگرد پڑے تکلیف سے کراہ رہے ہوتے ہیں۔ انسانی گردوں کی برآمد غیر ملکی زرمبادلہ کمانے کا ایک اہم ذریعہ بن چکی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق انسانی اسمگلر دنیا بھر میں سالانہ 40 ارب ڈالر سے زیادہ کمارہے ہیں، صرف پاکستان میں گردہ فروشی کے کاروبار سے 50 کروڑ حاصل کررہے ہیں۔ 2007ء میں لاہور میں گردہ چور ڈاکٹروں کا ایک گروہ بے نقاب ہواتھا۔ اس مکروہ دھندے کا سرغنہ اور اس کے 5 معاون ڈاکٹروں کو بھی گرفتار کر لیا گیاتھا۔
حیرت اس بات پر ہے کہ آئے دن انسانی اسمگلنگ میں ملوث افراد گرفتار ہوتے ہیں۔ ان کے ایجنٹوں کے گروہ کے گروہ پکڑے جاتے ہیں۔ یاد کریںبین الاقوامی اسمگلنگ میں ملوث پانچ پاکستانی ایجنٹ پیرس سے گرفتار ہوئے تھے۔ اس سے قبل بھی ’’انٹرپول‘‘ نے ایسے 52 پاکستانیوں کی فہرست پاکستان کو دی تھی جن پر انسانی اسمگلنگ کے کاروبار میں ملوث ہونے کا الزام تھا۔ تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ ان میں سے 17 افراد واقعتا انسانی اسمگلنگ کی مذموم سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ یہ تمام افراد دوہری شہرت رکھتے تھے۔ یہ تمام افراد، انسانی اسمگلنگ، اونٹ دوڑ، لاوارث لڑکیوں اور یتیم لڑکوں کو مختلف ممالک میں فروخت کرنے کے گھناؤنے جرائم کے مرتکب قرار دئیے گئے تھے۔جب انسانی اسمگلنگ کے سینکڑوں مقدمات میں مطلوب جاوید آمرے کو گرفتار کیا گیا تھا تو اس بات کی توقع ہوچلی تھی کہ شاید اب ناقابلِ معافی دھندے میں ملوث گروہوں اور افراد کے بارے میں مفید معلومات ملیں گی اور اس کے نیٹ ورک کو ختم کیا جاسکے گا اور ان ہزاروں وارثوں کے کلیجے ٹھنڈے ہوسکیں گے جن کے والد یا بھائی ان ایجنٹوں کے ہتھے چڑھ کر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ، لیکن انہیں کوئی عبرت ناک سزانہ دی جاسکی ۔
ان مجرموں کے بچے رہنے کی واضح اور بڑی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس مکروہ اور ناقابل معافی جرائم میں کئی با اثر لوگ بھی ملوث ہیں یا ان کے ساتھ تعلق ہے۔ دوسری طرف اس میں ملوث ڈاکٹروں ، سرجنوں سے متعلق کئی رپورٹیں منظر عام پر آچکی ہیں جس میںکئی ڈگری اور سند یافتہ ڈاکٹر بھی ملوث پائے لیکن واضح ثبوت کے باوجود نہ تو ان کی ڈگری کو منسوخ کیا جاتا ہے اور نہ ہی ان کو کوئی عبرت ناک سزا دی جاتی ہے۔ بعض اسپتالوں میں ایجنٹوں کی وجہ سے غریب لوگوں کے علاج کے بہانے گردے نکال لئے جاتے ہیں۔ جن ڈاکٹروں نے علاج کے بہانے غریب لوگوں کے گردے نکالے ان کے خلاف آج تک کوئی کارروائی کیوں نہیں ہوئی؟ اس کی کیا وجہ ہے؟ شاید یہ سربستہ راز اس وقت تک آشکار نہیں ہوگا جب تک قانون کے کٹہرے میں بلاتفریق اعلیٰ وادنیٰ سب کو نہ لایا جائے۔
ان تمام زندہ حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس گھناؤنے اور مکروہ کام کی روک تھام کے لئے فی الفور جامع قانون بناکر اس پر کسی کا لحاظ کئے بغیر سختی سے عمل کروایا جائے اور اس میں ملوث افراد اور ان کے ایجنٹوں کو عبرت ناک سزا دی جائے۔ ورنہ جس تیزی سے پاک وطن میں انسانی اسمگلنگ اور گردوں اور دیگر اعضاء کی خرید وفروخت جاری ہے، ایک دن یہ ناسور کی شکل اختیار کرجائے گی اور پھر اس کا علاج ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوگا۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ ذمہ داری حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اس کا سختی سے نوٹس لیں اور بلا امتیاز مجرموں کے خلاف کارروائی کی جائے اور سرکاری محکموں میں ان کے حامی اور اس میں شامل سیاستدانوں کی خبر لی جائے تاکہ انسانی اسمگلنگ اور بردہ فروشی کے گھناؤنے دھندہ سے چھٹکارا ملے۔ اس قسم کے بھیانک جرائم سے جہاں پاکستان کے غریب عوام ان اسمگلروں کے ہاتھوں سخت پریشان ہیں وہاں ملک کی بدنامی بھی ہو رہی ہے۔ حکومت کو اس معاملے میں ٹھوس اور سنجیدہ اقدامات کرنے چاہئیں۔ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے سیاسی مفادات سے بالاتر اور غیر جانبدار رویہ اختیار کرنا چاہئے۔