تہاڑ جیل کا شہید

February 13, 2019

تحریر:ڈاکٹر محمدمحمود ندیم…لندن
گیارہ فروری1984 کے روز تہاڑ جیل میںکشمیری قوم پر ٹوٹنے والی قیامتپر افسانہ لکھنے بیٹھا تو ۔۔۔۔ اچانک میرے افسانے کے اسٹیج پرایکخوبصورت بھوری آنکھوں والا نوجوان کشمیری رہنماء اپنی صلیب اپنے کاندھےپر اٹھائے نمودار ہوا، وہ بڑی شان سے چلتا ہوا پھانسی گھاٹ پر پہنچا اور پھر شہادت کی وادی میں اتر گیا، اس دیوتا نما شخص کو دیکھ کر میرے افسانے کے سارے فرضی کردار اسٹیج سے بھاگ گئے اور میرے قلم پر سکتہ طاری ہوگیا۔۔۔ میرے سامنے گیارہ فروری1984 کا وہ دن موجود ہے جب مقبول بٹ کے شہادت کی خبر عام ہوئی، ہزاروں لوگ بوڑھے، جوان، بچے اور ننھے بچے ہاتھوں میںمقبول بٹ شہید کی تصاویر اور جھنڈے اٹھائے کوٹلی کی گلیوں اور سڑکوںپر نکل آئے وہ سب اپنا سر پیٹ رہے تھے، واویلا کررہے تھے، ان کی آنکھوںمیںکشمیری کی آزادی کے خواب نمایاں تھے اور لبوںپر دھرتی ماںکی مکمل خود مختاری کی بلند آواز تھی، ایسے ماتمی مناظر ساری دنیا کے کئی شہروں، قصبوں میںاس روز دیکھے گئے۔۔۔۔
آج 11فروری 2016کے دن اس جلوس میں موجود تمام ننھے بچے جوان ہوچکےہیں اب وہ مقبو ل بٹ شہید کی صرف تصویر نہیں اٹھاتے بلکہ آزادی اور خود مختاری کے اس نظریئے پر مکمل یقین رکھتےہیں اور مقبول بٹ کے پرچم کو اپنی تحریک کا اوڑھنا بچھونا بناچکے ہیں، آج سرینگر سے دہلی، کوٹلی سے کراچی اور لندن سے نیویارک تک یہ موجود ہیںبلکہ اس روز جلوس سے دور وہ تمام تماشائی بچے بھی آج ان کے دست وبازو ہیں اور ان کے ساتھ ہراول دستے میں نظر آتے ہیں۔ تہاڑ جیل کے شہید رہنما نے اس روز تختہ دار پر جو نعرہ آزادی و خود مختاری بلند کیا تھا اس کی طلب آج ہر گھر اور ہر شہر میں سنائی دیتی ہے۔
کشمیر کی سیز فائر لائن کے دونوںطرف قابض کچھ عاقبت نااندیش حکمران آج کشمیر کو تقسیم کرنے کے سازشی منصوبے بنارہے ہیں، صدارتوں اور وزارتوں کا مکروہ سیاسی کھیل کھیلنے والے ان بے خبروں کو اس حقیقت کا بالکل ادراک نہیںآج ہر مظلوم کشمیری کے گھر میںتہاڑ جیل کا ایک قیدی اپنے کاندھے پر ایک سولی اور ہاتھوں میںپھندہ لئے وطن کی آزادی کے لئے ہر قربانی دینےکو تیار ہے۔ مگر یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ آزادی کی جنگ لڑنےوالی قومیںہر بار اپنے معصوم دیوتائوں کی قربانی نہیںکیا کرتیں، بلکہ اکثر اپنے کھلے دشمنوں کے ساتھ ساتھ آستین کے سانپوں اور اپنی قطاروں میں موجود میر صادق اور میر جعفر کی قربانی بھی کیاکرتی ہیں، کشمیر آج کسی ڈیفنس سوسائٹی یا ہائوسنگ اسکیم کا لاوارث پلاٹ نہیںجسے یہ کاروباری سیاسی بنیے اپنےدفتر کی گمنام فائلوںمیں بندربانٹ کرکے ہضم کرجائیں گے۔ کروڑوں مظلوم کشمیریوںکا وطن جنہوںنے اپنے لاکھوں نوجوان بیٹے بیٹیوں کو اس کی آزادی پر قربان کردیا اس طرح کی کسی تقسیم کی اجازت نہیں دیں گے۔تہاڑ جیل کے تختہ دار سےاٹھنے والی پکار دراصل کشمیر کی آزادی، تحفظ، یک جہتی کی آواز ہے اور یہ آواز آج ہر ملک، ہر گھر میں سنائی دیتی ہے اگر یہ آواز ان خود غرض، بہرے کاروباری پنڈتوں کو سنائی نہیں دیتی تو یہ ان کی بدنصیبی ہے۔۔۔۔افسانہ لکھنےوالامیراقلم آج بے بس اور خاموش ہے۔میں تہاڑ پھانسی گھاٹ کے اس شہید دیوتا کے بارے میںکیا افسانہ لکھوں جو صدیوں سے وطن پرستی پر لکھے گئے تمام افسانوں کو حقیقت کا روپ دے گیا، ہرمظلوم کشمیری کے گھر میںموجود ان تہاڑجیل کے قیدی نما حریت پسندوں پر کیا افسانہ لکھوں جو آج آزادی کشمیر کے میرے خواب کو تعبیر کے موڑ پر لے آئے ہیں۔