سپریم کورٹ، ماتحت عدالتوں سے سزایافتہ 10 سال بعد بری، شناخت پریڈکرانے والا مجسٹریٹ طلب

February 13, 2019

اسلام آباد(نمائندہ جنگ) عدالت عظمیٰ نے تھانہ ماڈل ٹائون لاہور کے 2009کے اغواء برائے تاوان اور قتل کے مقدمہ میں لاہور ہائیکورٹ سے عمر قید کی سزا پانے والے ملزم اسفند یار کی اپیل کی سماعت کے دوران کمزور استغاثہ اورعدم شواہد کی بناء پر ملزم کو بری کرنے کا حکم جاری کیاہے جبکہ قانون کے مطابق ملزمان کی شناخت پریڈ نہ کرنے پر متعلقہ جوڈیشل مجسٹریٹ کنور انوار علی کو ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 22 فروری تک ملتوی کردی ہے۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ قانون معاملات ٹھیک کرنے کیلئے کسی کو تو شروعات کرنی ہیں، ایسے مقدمات دیکھ کر افسوس ہوتا ہے، ایک تو بچہ قتل ہوگیا اور مجسٹریٹ نے شناخت پریڈ ہی درست نہیں کی، قانونی تقاضے بھی پورے نہیں ہوئے، جس کی وجہ سے ملزم سے سزائے موت بھی ہوگئی، مقدمات کے ساتھ ایسا سلوک کیوں کیا جاتا ہے؟ جنہیں قانون پر عمل کرنا ہے ان سے پوچھنا تو چاہیے، ٹرائل کورٹ اورہائیکورٹ نے قانون کیوں نہیں دیکھا، ملزم اصلی شہادتیں نقلی ہوتی ہیں، کسی کو تو شروعات کرنی ہے، ہم عدالتی قانون سے ہٹ کر فیصلہ نہیں دے سکتے، ہم نے آنکھیں بند کر لی تو قانون کہاں جائیگا؟ جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس مقبول باقر اور جسٹس سید منصور علی شاہ پر مشتمل تین رکنی بنچ نے منگل کے روز ملزم اسفندیار کی اپیل کی سماعت کی تو ملزم کی جانب سے محمد الیاس صدیقی ایڈووکیٹ،مدعی صابر بٹ کی جانب سے اعظم نذیر تارڑ اور ایڈیشنل پراسیکوٹر جنرل پنجاب پیش ہوئے۔ فاضل عدالت نے مقدمہ کے ریکارڈ کا جائزہ لیا اور چیف جسٹس نے ملزم اسفند یار ،تیمور، عزیر اور اورنگزیب کی اکٹھی شناخت پریڈ کے حوالے سے کہا کہ اس کیس میں ملزمان کی شناخت پریڈ کرنے والا مجسٹریٹ کون تھا؟ جس نے قانون پر عمل کرنا تھا اس سے پوچھ گچھ ہونی چاہیے، کیا مجسٹریٹ کو معلوم نہیں ہے کہ قانون کے مطابق ملزمان کی اکٹھی شناخت پریڈ نہیں کی جاسکتی ہے۔ انہوں نے ریمارکس دیئے کہ جنہیں قانون پر عمل کرانا ہے ان سے بھی توپوچھنا چاہیے، کیا مجسٹریٹ لگانے سے پہلے ان کی تربیت نہیں کی جاتی ہے؟ جس پر وکیل صفائی نے کہا کہ مجسٹریٹ کو تعیناتی کے پہلے مختلف کورسز کروائے جاتے ہیں،جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت قانون سے ہٹ کر فیصلہ نہیں دے سکتی ہے، ٹرائل کورٹ اور ہائی کورٹ نے قانون کو کیوں نہیں دیکھا۔ کسی نے تو خرابیوں کیخلاف شروعات کرنی ہے، یہ ملک ہمارا ہے اس میں ہماری آئندہ نسلوں نے رہنا ہے، روزانہ ہی قتل کے مقدمات میں دیکھتے ہیں کہ پولیس اصل ملزم تک پہنچ جاتی ہے لیکن ملزم اصلی جبکہ شہادتیں سب نقلی ہوتی ہیں اور ایسے نظر آتا ہے کہ ملزم کو گرفتار کرنے کے بعد شہادتیں بنائی گئی ہیں۔