جھوٹی گواہی کا خاتمہ

February 17, 2019

71برس سے ہمارے عدالتی نظام کا یہ المیہ رہا ہے کہ جھوٹی شہادتوں کی بنا پر اب تک لاکھوں سائل انصاف لئے بغیر دنیا سے چلے گئے اور نجانے کتنوں کی نگاہیں آج بھی عدالتوں پر لگی ہوئی ہیں۔ جھوٹے کیسوں نے ہمیشہ جھوٹی شہادت کی حوصلہ افزائی کی جس سے ظلم و جبر، تشدد کے واقعات اور نفسیاتی عوارض میں اضافہ ہوا۔ صورتحال آج اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے چیف جسٹس آف پاکستان کا منصب سنبھالتے ہی اپنی سماعت میں آنے والے ابتدائی کیسوں ہی میں اصل خرابی کو اجاگر کیا اور 2004 کے ایک مقدمہ قتل کی سماعت کے دوران کیس کے حوالے سے یہ حوصلہ افزا ریمارکس دئیے کہ آئندہ ایسا قانون نافذ کریں گے کہ کوئی شخص جھوٹی گواہی نہیں دے سکے گا، ایک حصہ بھی غلط ہوا تو سارا بیان مسترد ہو گا۔ فاضل چیف جسٹس کا یہ کہنا بجا ہے کہ اسلامی کے ساتھ ساتھ انگلش قوانین بھی جھوٹی گواہی تسلیم نہیں کرتے اور جلد ہی جھوٹی گواہی کا مکمل سدباب کر دیا جائے گا کیونکہ فرمانِ نبویؐ کی رو سے جھوٹی گواہی شرک جیسا گناہ عظیم ہے جس سے پورا عدالتی نظام بے معنی ہو جاتا ہے۔ چیف جسٹس کے نے صورتحال کا جس طرح ادراک کیا ہے اس کی روشنی میں امیدِ واثق ہے کہ صرف ایک جھوٹی گواہی کا عنصر نکال دینے سے انصاف کے لاکھوں طلبگاروں کو انصاف مل سکے گا۔ آج اوپر سے نیچے تک تمام عدالتوں میں بے شمار مقدمات محض جھوٹ کی بنیاد پر سالہا سال سے زیر التوا پڑے ہیں۔ وطن عزیز میں یہ بھی ایک المیہ رہا ہے کہ محکموں میں اصلاحات کی متعدد کوششیں حکومت یا حکام تبدیل ہو جانے کی وجہ سے پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ پاتیں، عدالتی اصلاحات بھی اسی بناء پر تاخیر کا شکار ہوتی چلی آ رہی ہیں۔ امید ہے کہ کم از کم اب جھوٹی گواہی کے بعد تفتیش اور کمزور استغاثے کے رجحانات کی حوصلہ شکنی کے لئے بھی ایسے اقدامات عمل میں لائے جائیں گے جن سے عدالتی نظام مکمل طور پر درست ہو سکے۔


اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998