پنجاب ، وزیر اعظم کی حمایت یافتہ کرپشن مخالف مہم، با اثر لوگ ناراض

February 22, 2019

اسلام آباد (انصار عباسی) وزیراعظم عمران خان کے منتخب کردہ ڈائریکٹر جنرل اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ پنجاب (اے سی ای پی) حسین اصغر کو صوبائی قیادت اور ساتھ ہی بیوروکریسی کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا ہے، اگرچہ صرف چار ماہ کے دوران ہی ان کی قیادت میں ادارے نے 58؍ ارب روپے کے اثاثے ریکور کیے (واپس لیے) ہیں لیکن اس کے نتیجے میں کئی طاقتور اور با اثر لوگ ناراض ہوگئے ہیں۔ لیکن اس بات کا سہرا وزیراعظم عمران خان کو جاتا ہے جو بدستور حسین اصغر کے حامی ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ پنجاب میں انسداد دہشت گردی کی مہم کے دوران حکمران پی ٹی آئی اور ق لیگ کے ارکان اسمبلی کیخلاف پانچ سے 6؍ پرچے کٹ چکے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اب تک نون لیگ یا پیپلز پارٹی کے ارکان اسمبلی کیخلاف کرپشن کا ایک بھی مقدمہ درج نہیں کیا گیا۔ جن مہینوں کے دوران جن لوگوں کیخلاف پرچے کاٹے گئے ہیں ان میں لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے عہدیدار، کچھ ڈپٹی کمشنرز اور پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے مقرر کیے گئے کچھ دیگر سرکاری عہدیدار شامل ہیں۔ دس سال تک صوبے پر حکومت کرنے والے شہباز شریف یا ان کی کابینہ کے کسی بھی رکن کیخلاف کرپشن کا کیس نہیں ملا۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ عرمان خان نے حسین اصغر کو کرپشن کے مقدمات کھوج نکالنے کیلئے مینڈیٹ دیا ہے اور بلا خوف و خطر کرپٹ افراد کیخلاف کارروائی کی ہدایت کی ہے اور اس کیلئے انہیں وزیراعظم کو مطلع کرنے کی بھی ضرورت نہیں چاہے ایسا شخص وزیراعظم کا سگا رشتہ دار ہی کسی کیس میں ملوث کیوں نہ ہو۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان کے سوا اتحادی جماعتوں پی ٹی آئی اور ق لیگ میں کوئی بھی ایسا نہیں جو حسین اصغر کو عہدے پر مزید دیکھنا چاہتا ہو کیونکہ انہوں نے کئی اقدامات کیے ہیں اور سرکاری اثاثے طاقتور اور با اثر لوگوں سے واپس لیے ہیں۔ صوبے کی اعلیٰ بیوروکریسی بھی حسین اصغر سے ناخوش ہے کیونکہ ان کی غیر قانونی شادی ہالز اور مارکیز کیخلاف کارروائیوں کی وجہ سے طاقتور اور بڑے لوگوں سے جان پہچان رکھنے والے لوگوں کو نقصان ہو رہا ہے۔ پنجاب کا انسداد دہشت گردی کے ادارے (اے سی ای)، جو سالانہ صرف ایک یا دو ارب روپے ہی وصول کر پاتا تھا، اب حسین اصغر کی زیر قیادت گزشتہ چار ماہ کے دوران مجموعی طور پر 58؍ ارب روپے کی وصولی (ریکوری) کر چکا ہے، اس میں نقد رقوم اور سرکاری اثاثے شامل ہیں۔ لیکن شاندار کارکرد گی کے باوجود، صوبے کی سیاسی قیادت اور بیوروکریسی حسین اصغر سے نجات حاصل کرنا چاہتی ہے۔ وہ اپنی ساکھ اور ایمانداری کی وجہ سے مشہور ہیں۔ جنگلات کی محفوظ زمین کے معاملے میں دیکھیں تو اس پر راولپنڈی کی ایک نجی ہائوسنگ سوسائٹی نے قبضہ کر لیا تھا، اے سی ای کی جانب سے مشرف دور میں پنجاب میں اہم عہدوں پر تعینات کچھ بیوروکریٹس کیخلاف پرچے کٹوائے گئے۔ اسی کیس میں، اے سی ای نے دیکھا کہ پی ٹی آئی کے کچھ سرکردہ سیاسی شراکت داروں نے بھی تقریباً 200؍ کنال زمین حاصل کرکے فائدہ اٹھایا ہے، یہ زمینیں انہوں نے اپنے اور اپنے رشتہ داروں کے نام پر منتقل کرا دی تھیں۔ موجودہ حکمران طبقہ کے انتہائی با اثر سیاسی رہنمائوں کے علاوہ، راولپنڈی سے پی ٹی آئی کے ایک رکن صوبائی اسمبلی پر بھی کرپشن کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ ق لیگ کے سرگودھا سے صوبائی اسمبلی کے رکن اور اٹک سے پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی پر بھی اے سی ای پی نے پرچہ کٹوایا ہے۔ ایک اور رکن اسمبلی ہیں جو اپنی ہی بے نامی ہائوسنگ سوسائٹی کو فائدہ پہنچانے کیلئے سرکاری زمین پر غیر قانونی قبضے میں ملوث بتائے گئے ہیں۔ کچھ بڑے ہوٹلز بھی ہیں جن کی انتظامیہ اے سی ای پنجاب سے ناراض ہے کیونکہ ادارے نے صوبے میں غیر قانونی اور غیر مجاز شادی مارکیز کیخلاف کارروائیاں شروع کر رکھی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) افسران اے سی ای پنجاب کی کارروائیوں سے پریشان ہیں کیونکہ ای سی ای کی جانب سے مکمل تحقیقات کے بعد ہی ایل ڈی اے والوں پر پرچے کٹوائے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک ایف آئی آر ایک ایسے کیس کے حوالے سے ہے جس میں اتھارٹی کی منظوری کے بغیر ہی اسٹڈیم کی تعمیر شروع کر دی گئی تھی۔ وہاں پر سینٹرل پارک تھا لیکن اسے اسٹیڈیم میں تبدیل کر دیا گیا۔ کچھ رہائشی پلاٹس بھی اس اسٹیڈیم میں شامل کر دیے گئے تھے۔ ایک سڑک بھی توڑ کر اسٹیڈیم میں شامل کی گئی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ایل ڈی اے نے پرانی تاریخوں میں کرکٹ کلب کے ساتھ معاہدہ کیا حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ایل ڈی اے اپنے ہی ادارے کے قوانین کے مطابق نجی پارٹی کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں کر سکتی۔ اس کے علاوہ، معاہدے کے ساتھ کوئی شرائط و ضوابط بھی شامل نہیں تھیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کوئی ٹینڈر جاری نہیں کیا گیا اور 52؍ کنال زمین نجی کلب کو دے دی گئی تاکہ وہ اسے جیسے چاہے استعمال کرے۔ مزید برآں، اے سی ای کے ذرائع کے مطابق، ایل ڈی اے افسران نے سرکاری زمین پر قبضے کیلئے ایک نجی کمپنی کی مدد کی۔ ایل ڈی اے والوں پر ایک اور پرچہ بھی کاٹا گیا جو اصل میں ایل ڈی اے کی جانب سے نجی ہائوسنگ اسکیم کو پلاننگ کی اجازت دینے کے متعلق ہے۔ یہ اجازت نامہ بعد میں منسوخ کر دیا گیا۔ مبینہ طور پر این او سی یہ جانتے ہوئے جاری کیا گیا کہ زمین وفاقی حکومت کی ہے اور یہ زمین سوسائٹی اور رائیونڈ روڈ کے درمیان تھی۔ اے سی ای کے ذرائع کا کہنا ہے کہ سوسائٹی کی انتظامیہ نے این او سی ملتے ہی فوراً رائیونڈ روڈ تک رسائی کیلئے تعمیرات مکمل کر لیں، ایل ڈی اے نے اجازت نامہ منسوخ کر دیا لیکن اُس وقت تک مذکورہ ہائوسنگ سوسائٹی کی انتظامیہ روڈ کی تعمیر کا اپنا مقصد پورا کر چکی تھی۔