پلوامہ واقعہ … بھارت ذمہ دار

February 22, 2019

فکرفردا …راجہ اکبرداد خان
پاکستان جس طرح کی جنگی اور اعصابی دہشت گردی کا ایک عرصہ سے شکار بنا ہوا ہے اس کی گہرائی کا علم دوست اور دشمن ممالک دونوں کو ہے۔ اس تلخ حقیقت کو مانتے ہوئے کچھ عرصہ سے ملک کے تمام اہم اداروں نے تہہ کرلیا ہے کہ ملکی سالمیت اور باعزت بقا کی خاطر تمام فیصلے سب سے پہلے پاکستان کے تناظر میں کئے جانے ہی عقلمند سوچ ہے۔ معیشت کو بھی بے پناہ مشکلات کا سامنا ہے۔ لہٰذا ان حالات میں کئی حوالوں سے چادر دیکھ کر ہی پائوں پھیلانے کی جس پالیسی پہ ملک چل رہا ہے، وہ ہم سب کے قابل فہم ہونی چاہیے۔ ہمارے اپنے مسائل اتنے زیادہ ہیں کہ ہم کئی محاذوں پہ جارحانہ پالیسیاں اختیار نہیں کرسکتے۔ ماسوائے خارجہ امور اور معاشی میدان کے، بھارت کے ساتھ بھی پرامن بقا کے لئے کوششوں میں پاکستان کبھی پیچھے نہیں رہا۔ 70سال سے چلتا کشمیر ایشو صرف بھارتی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ہی اٹکا ہوا ہے۔ جہاں بھارت ایک بڑا ملک ہونے کی حیثیت سے ہمیں خاطر میں نہ لاکر کشمیریوں کی تحریک آزادی کو ہمیشہ کے لئے دفن کردینے کے درپہ ہے۔ دوسری طرف پچھلی چار دہائیوں میں آزادی کی یہ تحریک اتنی شہادتوں اور قیدوبند کی صعوبتوں کی داستانوں سے لیس ہے کہ تاریخ اسے نظر انداز نہیں کرسکتی اور حالیہ دس سالوں کی تاریخ جس طرح انسانی اور مالی قربانیوں سے لدی آج جس مقام پہ پہنچ چکی ہے، وہاں کشمیریوں کی آج کی نسل موت کے خوف، گرفتاریوں کے خوف سے اور دیگر دنیاوی نفع و نقصانات کی سوچوں سے آزاد ہوچکی ہے۔ دس سالہ بچے سے بزرگ مرد اور خواتین کا صرف ایک ہی نعرہ ہے۔ ’’لے کے رہیں گے آزادی‘‘ مقبوضہ کشمیر کے اندر سے چلنے والی اس تحریک کے ہر بڑے واقعہ کو پاکستان کے گلے میں ڈال دینے سے نہ مسئلہ پہلے حل ہوا ہے اور نہ ہی آئندہ ہوگا۔ اگر بھارتی اعصاب پہ پاکستان اس حد تک چھایا ہوا ہے کہ احتجاج کرتے پندرہ سالہ نوجوان انہیں دہشت گرد لگتے ہیں، جن کو کنٹرول کرنے کے لئے کئی لاکھ فوج کی ضرورت ہے تو پندرہ سالہ نوجوانوں کا یہ ہجوم اپنی آدھی جنگ جیت چکا ہے۔ فاروق عبداللہ، محبوبہ مفتی اور حریت کانفرنس کے تمام قائدین موجودہ صورت حال تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں۔ بھارتی سول سوسائٹی کا بڑا حصہ اور اقلیتوں کی بھاری اکثریت بھی حالات میں تبدیلی کی خواہشمند ہے تو ممکن دکھائی نہیں دیتا کہ بھارت رائے عامہ سے ٹکرانے کی جرأت کرے گا۔ تمام راستے گفت و شنید کی طرف ہی کھلتے ہیں۔ بھارت نے حسب روایت پلوامہ واقعہ جس میں پچاس کے قریب بھارتی پیرا ملٹری ہلاک ہوئے ہیں کہ ذمہ داری پاکستان پہ ڈال دی ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ کرتار پور بارڈر کھولنے کے فیصلہ کے بعد اور بھارتی پنجاب کے ایک صوبائی وزیر نوجیت سنگھ سدھو کی پاکستان وزٹ کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان باہمی اعتماد کی فضا بن رہی تھی اور ہر کسی کو یاد رکھنا چاہئے کہ پاکستان نے ہمیشہ سے حل طلب مسائل پہ بات چیت کے دروازے کھولنے کی کوشش کی ہے۔ اگر تمام ایشوز پہ بشمول کشمیر بھارتی پوزیشن ہم سے بہتر ہے تو انہیں بات چیت کے ذکر پہ ہی فوری طور پہ آمادگی ظاہر کرکے ان معاملات سے جان چھڑالینی چاہیے۔ اسی لئے وہ دفاعی پوزیشن سے باہر نکل کر کھیلنا قبول نہیں کرسکتے۔اگر بھارت سفارت کاری میں پاکستان کا مقابلہ نہیں کرسکتا تو آیئے ہم دونوں ممالک کشمیر کا پورا کیس چند غیر جانبدار لوگوں کے سامنے رکھ دیتے ہیں اور دیکھتے ہیں وہ کیا حل نکالتے ہیں؟ مگر بھارت اس طرف بھی نہیں بڑھنا چاہتا۔ کشمیریوں پہ ظلم کے پہاڑ توڑتے رہنا غیر مہذب رویہ ہے۔ دنیا کا ایک بہت بڑا حصہ اس بھارتی ظلم و ستم کو روکنے کی طرف بڑھنے کو تیار ہورہا ہے۔ معتبر آوازیں زیادہ دیر نہیں دب پائیں گی۔ پاکستان کی نئی حکومت کے امن اور سلامتی کے حوالہ سے واضح پیغام ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتی ہے۔ پلوامہ واقعہ کی ذمہ داری پاکستان پہ ڈالنی ایک غیر منطقی سوچ ہے۔ پاکستانی افواج اپنے بارڈر پہ گہرے انداز میں مصروف ہیں۔ حکومت کی عمر بھی صرف چھ ماہ ہے۔ معیشت بھی بہت کمزور ہے۔ ان حالات میں پاکستان کے لئے پلوامہ جیسے واقعہ میں ملوث ہونے کی کوئی عقلی دلیل نہیں رہ جاتی اور پاکستان میں ان چیزوں کو دیکھنے کے لئے ہر سطح پر اہل لوگ موجود ہیں۔ پاکستان کو آج دنیا کیGoodwillکی ضرورت ہے نہ کہ دنیا کی تنقید اور ناراضگی کی۔ لہٰذا پلوامہ واقعہ میں پاکستان کا کوئی حصہ نہیں۔ بندہ اگر جیش محمد کا تھا، کوئی ثبوت نہیں کہ اسے جیش محمد نے پاکستان میں تیار کیا اور سرحد پار بھجوایا۔ ایسی تنظیموں کے کہاں کہاں ٹھکانے ہیں کا کوئی حتمی جواب نہیں۔ بھارت یہ مان لے کہ بمبار ایک مقامی نوجوان تھا، جو یقیناً مقبوضہ کشمیر میں ہی ٹرینڈ ہوا۔ اس نے جو کچھ کیا واضح طور پر ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔ بھارت کئی بار پاکستان پر دہشت گردی کی مدد کرنے والا ملک کا الزام عائد کرچکا ہے مگر ہر بار ’’ثبوت‘‘ مہیا کرنے میں ناکام ہوجاتا ہے۔ پلوامہ واقعہ بھی بھارت کا اپنا کیا ہوا معاملہ ہے۔ بھارت اس کوشش میں کہ ٹیررازم مانیٹر کرنے والے بین الاقوامی ادارہ سے یہ کہلوایا جائے کہ پاکستان دہشت گردی کی مدد کرنے والا ایک ملک ہے۔ اس بار اپنے اس کھیل میں کچھ زیادہ ہی آگے نکل گیا ہے۔ بھارت نے دنیا بھر کے سامنے اپنا کیس پیش کرنا روز اول سے ہی کردیا ہے اور کئی اہم ملک پاکستان دشمنی میں بھارت کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ اس لئے حکومت کو اہم دارالخلافوں میں اپنا سفارتی کام تیز کرنا ہوگا۔ کشمیری نوجوانوں نے جس طرح تحریک آزادی کی قیادت اپنے ہاتھوں میں لے لی ہے اور جس طرح وہ ہر انداز میںResitanceکی علامت بن چکے ہیں سے دنیا پہ واضح ہورہا ہے کہ دنیا کے اہم ممالک کو ان کی آوازوں پہ توجہ دینی پڑے گی۔ برطانیہ میں5فروری کو ایک بڑا مظاہرہ10ڈائوننگ کے باہر ہوا۔ چھٹی کا دن نہیں تھا، تب بھی اچھی تعداد میں لوگ باہر آئے۔ اس مظاہرہ میں ہٹو بچو کا ماحول نہ ہونے کی وجہ سے مظاہرین کی اکثریت من پسند انداز میں نعرہ بازی کرتے ہوئے اپنے اور مقبوضہ کشمیر کے اندر ہم وطنوں کے دل گرماتے رہے۔ اپوزیشن لیڈر چوہدری یٰسین ایم ایل اے، سردار عتیق احمد خان ایم ایل اے اور بیرسٹر سلطان محمود اپنے اپنے قافلوں کے ساتھ مظاہرہ میں طویل وقت تک موجود رہے، لیکن مجموعی طور پر یہ ایک نان پارٹی مظاہرہ تھا، جہاں اکثریت کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے انتہائی سرد موسم میں طویل وقت تک مظاہرہ میں موجود رہی۔ اللہ ہر کسی کو آزاد فضائوں میں رہنے کی خوش نصیبی عطا فرمائے۔