پاکستانیوں سمیت ایشیائیوں کے گھروں میں چوریاں

February 22, 2019

سکاٹ لینڈ کی ڈائری…طاہر انعام شیخ
موسم سرما کے آغٓاز کے ساتھ ہی جبکہ دن چھوٹے اور تاریکی میںاضافہ ہو جاتا ہے، نہ صرف سکاٹ لینڈ بلکہ پورے برطانیہ میںایشیائیوں خصوصاً پاکستانیوں کے گھروں میں چوریوں اور ڈاکوں میں ایک دم اضافہ ہو جاتا ہے۔ ان چوروں کا ہدف صرف زیورات اور نقدی ہوتی ہے، صرف گزشتہ دو تین سالوںکے دوران سکاٹ لینڈ میں 20لاکھ جب کہ برطانیہ بھر کے ایشیائیوں کے گھروں سے 5کروڑ پونڈ کے زیورات اور نقدی چوری ہوچکی ہے۔ اب تو یہ عالم ہے کہ دن دہاڑے بھی ڈاکو آجاتےہیں اور لوگ خوف میں مبتلا رہتے ہیں۔ شاید ہی کوئی گھر بچا ہو، جہاںپر چوری نہ ہوئی ہو یا ڈاکہ ڈالنے کی کوشش نہ کی گئی ہو۔ سونے کے زیورات کے ساتھ ایشیائی خواتین کا رشتہ بہت پرانا ہے جو اسے نہ صرف امارت بلکہ حسن میںاضافے کا سبب سمجھتی ہیں، اکثر گھرانوں کی تمام جمع شدہ پونجی سونے کے زیورات کی شکل میںہوتی ہے، ان زیورات سے بعض اوقات جذباتی تعلق بھی وابستہ ہوتا ہے کیونکہ مائیں نسل در نسل اپنے زیورات کو اولاد کو منتقل کرتی رہتی ہیں۔ برطانیہ کے ایشیائی اب مالی طور پر خاصے خوشحال ہیں اور عورتیںشادی بیاہ کی تقریبات میںزیور سے لد کر اپنی امارت کا مظاہرہ کرتی ہیں، انہی شادی بیاہ کی تقریبات میںجرائم پیشہ نوجوان لڑکے یا ان کی اہل کار خواتین بھی موجود ہوتی ہیں جو زیادہ زیور والی خواتین کے بارے میںمعلومات حاصل کرلیتی ہیں سب سے پہلے ان چوری کی وارداتوں کا آغاز سکاٹ لینڈ میںپاکستانیوں کی اکثریت کے سب سے بڑے علاقے پولک شیلڈ سے ہوا، جونہی کوئی خاتون اپنے گھر کو خالی چھوڑ کر سبزی وغیرہ لینے کو جاتی تو واپسی پر اسے گھر سے زیور اور نقدی یا دیگر قیمتی اشیاء غائب نظر آتیں، ان چوریوں میںمقامی ایشین نوجوان ہی ملوث ہوتے ہیں۔ وہ وقتاً فوقتاً گوروں کو بھی استعمال کرتے تھے لیکن اب گزشتہ دس بارہ سالوں میں سونے کی قیمت میںکئی گنا اضافہ ہوچکا ہے جس نے بے شمار جرائم پیشہ گوروں کے گروپس کو ایشیائیوں کے گھروں میں چوریوںاور ڈاکوں کی طرف راغب کیا اور بعضصورتوں میں وہ اپنے آزاد گروپ بنا کر چوریوں کی وارداتیں بھی کرنے لگے، لیکن عمومی طور پر ان کو معلومات دینے کے لئے ایشین نوجوان شامل ہوتےہیں اور وہ پس منظر میں رہ کر صرف تنظیمی امور انجام دیتے ہیں، موبائل فون نے ان گروپس کو منظم کرنے میںبے انتہامدد دی ہے، بعض جرائم پیشہ یورپین بھی ان گروپس کا حصہ بن گئے ہیںجن میں خاصی تعداد میںمشرقی یورپ کے افراد شامل ہیں۔ اپنے کام کو منظم کرتے ہوئے ان چوروںاور ڈاکوئوں نے بعض ہالیڈے کمپنیوں میںکام کرنے والے افراد کو اپنے گروپ کا حصہ بنالیا ہے جو ان کو بتاتے ہیں کہ فلاں ایشین خاندان فلاں تاریخ کو اتنے دنوںکے لئے چھٹیوںپر پاکستان جارہا ہے، بعض اوقات اس طرح کی معلومات ان کو ٹیکسی کمپنیوںمیں کام کرنے والے افراد یا ٹیکسی ڈرائیور بھی مہیا کرتے ہیں، بعض اوقات یہ چور گھروں میںکام کرنے والوں کا روپ دھار کر دستک دیتے ہیں اور چیک کرتے ہیں کہ گھر میں کوئی فرد موجود ہے کہ نہیں، یہ لوگ ہدف شدہ گھر کی نگرانی کرتے ہیں اور پھر موقع پاکر ایک گروپ کی شکل میں چوری کرتے ہیں۔ دو افراد موبائل لے کر گھر کے آگے اور پیچھے والی سائیڈ کی نگرانی کرتےہیں تاکہ پولیس کی آمد یا کسی ایمرجنسی کی شکل میں ساتھیوں کو مطلع کرسکیں جب کہ چار پانچ افراد گھر کے اندر داخل ہوجاتے ہیں اس سے قبل وہ الارم کا اور سرچ لائٹ کا کنکشن کاٹتے ہیں ان کے پاس میٹل ڈیٹکٹر Metal Detectorہوتا ہے جس کی مدد سے ان کو گھر میں پڑے سونے کے زیورات تلاش کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیںآتی اور وہ چند ہی منٹوں میںکام ختم کرکے فرار ہوجاتے ہیں۔ عام طور پر ان لوگوں نے دستانے اور خصوصی لباس بھی پہنا ہوتا ہے اور کسی سی سی ٹی وی کیمرے میں آنے کے باوجود ان کو تلاش کرنا مشکل ہوتا ہے، سونے کی قیمت کا زیادہ ہونا اس کا کم حجم، چوری اور پھر فروخت میںآسانی جرائم پیشہ افراد کیلئے نہایت کشش کا باعث بن گئی ہے سٹی سنٹرز میں قرض دینے یا اشیاء خریدنے والی کمپنیاں سونے کے ڈیلر، بعض جیولرز اس کو فوراً خرید لیتے ہیں اور پھر یہ آن لائن بھی مختلف شکلوں میںفروخت ہوجاتا ہے، یہ گروہ اتنے منظم ہیں کہ چوری کرتے ہی سامان کو کئی سو میل دور کسی دوسرے علاقے میںپہنچا دیتےہیں اور اگر چور گرفتار بھی ہوجائیں تو زیورات کی برآمدگی کی شرح آٹے میں نمک کے برابر ہوتی ہے۔ بڑھتے ہوئے ان جرائم کی روک تھام کیلئے اب برطانوی معاشرے کی روایات میںبھی تبدیلی آرہی ہے پہلے جہاں کسی دوسرے کے گھر کے معاملات پر نظر رکھنے کو بالکل پسند نہیں کیا جاتا تھا اب نیبرہڈ واچ Neighbourhood Watchپروگرام کے تحت تقریباً ہر علاقے میں ایسی سماجی تنظیمیں بن گئی ہیں جو ایک دوسرے کے مکانات پر نظر رکھتی ہیں۔ گلی میںپھرنے والے مشتبہ افراد کا فوراً نوٹس لیتی ہیں اور فیس بک پر دوسروں کو مطلع کرتی ہیں۔ چوری سے بچنے کے لئے ضروری احتیاطی تدابیر اختیار کی جانی چاہئیں، گھروںمیںایسے سی سی ٹی وی کیمرے نصب کرائیں جن کا الارم براہ راست پولیس سے منسلک ہوتا ہے۔ چھٹیوںپر جاتے ہوئے ہمسایوں کو مطلع کریں اور اگر ممکن ہو تو دوست یا رشتہ دار کو کہیں کہ وہ آپ کی غیرموجودگی میںوہاں آکر سوجائے۔ عدالتوں کو بھی چاہئےکہ بظاہر شریف نظرآنے والے ایسے جرائم پیشہ کاروباری افراد جو چوری کردہ زیورات کو خریدتے ہیں ان کو سخت سزائیںدے۔ پاکستانیوں کی نئی نسل کو اگرچہ پرانی نسل کی نسبت زیورات سے کم رغبت ہے پھر بھی ان کو چاہئے کہ وہ صرف اتنا ہی زیور خریدیں جو بہت ضروری ہو، ویسے بھی یہ زیور عام استعمال میں نہیںآتا کیونکہ اگر آپ اس کو پہن کر گھر سے باہر بازار میںبھی جائیں تو کسی ڈاکو کا خطرہ رہتا ہے جوکہ زیور چھیننے کے ساتھ خواتین کو نقصان بھی پہنچا سکتا ہے۔ زیورات خریدنے کے بجائے اس رقم کو پراپرٹی یا دیگر سرمایہ کاری میں استعمال کریں۔ زیورات کی حفاظت کا کام تو اب اتنا مشکل ہوگیا ہے کہ بے شمار بینکوں نے گاہکوں کو حفاظتی لاکرز دینے ختم کردیئے ہیں جس سے لوگ اپنے زیور کو گھروں میںرکھنے پر مجبور ہیں جس سے چوری کا خدشہ بھی اتنا ہی زیادہ بڑھ گیا ہے سب سے بہتر حل یہی ہے کہ زیورات خریدنے کے کلچر کو ہی ختم کیا جائے۔