سائنسی تحقیق کی روشنی میں ہوم لائبریری کے فائدے

February 24, 2019

کہتے ہیں کہ کتاب انسان کی بہترین دوست ہے اور اس بات کو سائنسی تحقیق بھی ثابت کررہی ہے۔ حال ہی میں سامنے آنے والی ایک تحقیق کے مطابق، امریکا میں ایک گھر میں اوسطاً 114کتابیں موجود ہیں۔ ماہرین کے مطابق، ایک گھر میں اتنی تعداد میں کتابیں ہونا ہر لحاظ سے ایک اچھا عدد ہے۔تحقیق میں یہ جاننے کی کوشش کی گئی تھی کہ کتابیں، نوعمری میں ایک لڑکے یا لڑکی کی خواندگی (Literacy)، پڑھنے کی صلاحیت (Reading)، ہندسوں کے علم (Numeracy)اور انفارمیشن کمیونی کیشن ٹیکنالوجی (ICT) ہنر کو کس طرح بڑھاتی ہیں۔ اس سلسلے میں محققین نے 2011ء سے 2015ء کے درمیان 31ملکوں کے1لاکھ 60ہزار نو عمر افراد کا مشاہدہ کیا۔ تحقیق میں نوجوانوں سے سوال کیا گیا، ’جب آپ 16سال کے تھے، اس وقت آپ کے گھر میں اندازاً کتنی کتابیں موجود تھیں‘؟ (ان کتابوں میں نصابی کتب شامل نہیں ہیں اور ایک میٹر کے شیلف میں تقریباً40کتابیں رکھی جاسکتی ہیں)۔

تحقیق میں ماہرین اس نتیجے پر پہنچے کہ جس گھر میں 80یا اس سے زائد کتابیں موجود ہوں، وہاں بچے اور نوجوان پڑھنے کی صلاحیت، ہندسوں کے علم اور انفارمیشن کمیونی کیشن ٹیکنالوجی کے ہنر میں ان بچوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ آگے ہوتے ہیں، جن کے گھر پر کتابیں نہیں ہوتیں۔ تحقیق میں کہا گیا ہے، ’وہ بچے جو ہوم لائبریریوں میں پلے بڑھے ہوتے ہیں۔

تحقیق میں کتابوں کی طاقت کے فرق کو انتہائی واضح انداز میں بیان کیا گیا ہےکہ جن گھروں میں لائبریری ہوتی ہے، وہاں ہائی اسکول سطح کے بچے پڑھائی، ریاضی اور آئی سی ٹی کے میدان میں ان گریجویٹ نوجوانوں کے برابر علم اور صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں، جنھیں زندگی میں بہت کم یا نہ ہونے کے برابر کتابیں پڑھنے کو ملی ہوں۔

تحقیق کی سربراہی کرنے والے ڈاکٹر جوئینا سیکورا کا تعلق آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی سے ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’ہم نے دیکھا کہ جس گھر میں 80 سے 350 کتابیں تھیں، وہاں بچے پڑھنے، ہندسوں کی پہچان اور انفارمیشن کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں زیادہ باصلاحیت تھے جبکہ 350سے زائد کتابوں کا اضافی فرق دیکھنے میں نہیں آیا‘۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ والدین جو چاہتے ہیں کہ ان کے بچوں کو گھر کی لائبریری کے خاطر خواہ فوائد پہنچیں، وہ گھر میں زیادہ سے زیادہ کتابیں رکھیں۔

بڑی لائبریری سے کیا مراد ہے؟ اس کا دارومدار اس بات پر ہے کہ آپ دنیا کے کس خطے کے رہنے والے ہیں۔ اسکینڈے نیوین گھروں میں سب سے زیادہ کتابیں پائی گئیں۔ ناروے کے 14فیصد اور سویڈن کے 13فیصد گھروں میں 500 یا اس سے زائد کتابیں موجود تھیں۔ تاہم کچھ ملک ایسے ہیں، جہاں گھروں میں کتابوں کی اوسط تعداد 80 سے کم تھی، ایسے ملکوں میں چلی، مصر، اٹلی، سنگاپور اور ترکی شامل ہیں۔ ترکی کے ایک گھر میں اوسطاً27کتابیں، برطانیہ میں ایک گھر میں اوسطاً143کتابیں اور ایسٹونیا میں اوسطاً218کتابیں موجود تھیں۔

80کتابوں کی قیمت سال کی ٹیوشن سے کم

تحقیق میں بتایا گیا ہے، ’وہ یونیورسٹی گریجویٹس جن کے گھر میں بمشکل ہی کوئی کتاب موجود تھی، ان میں خواندگی کی اوسط سطح دیکھی گئی، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ گھر میں بچوں کو کتابوں میں گھیرے رکھنا ان کے مستقبل کے لیے بہترین سرمایہ کاری ہے۔ اس لیے خواندگی کے لحاظ سے کتابی بچوں کو تعلیم کے میدان میں یہ ایک بڑا فائدہ ملتا ہے۔ ہوم لائبریری کا اثر ایسا ہے جیسے بچوں نے کئی سال کی اضافی تعلیم حاصل کر رکھی ہو‘۔

تحقیق میں مزید کہا گیا ہے کہ وہ والدین جو اپنے بچوں کو کالج اور یونیورسٹی تک کی تعلیم دِلوانے کا ارادہ رکھتے ہیں، انھیں چاہیے کہ اعلیٰ تعلیم کے زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کرنے کے لیے وہ اپنے بچوں کو بچپن سے ہی گھر میں کتابی ماحول فراہم کریں، کیونکہ اس سے تعلیمی زندگی کے علاوہ کیریئر میںبھی ان کی کامیابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

ہوم لائبریری کیوں فائدہ مند ہے؟

محققین اس کی دو وجوہات بیان کرتے ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ کم عمری میں کتابوں سے متعارف ہونے کے باعث بچوں میں علم دوست اور سیکھنےکا رجحان پروان چڑھتا ہے اور ان میں طویل مدتی صلاحیتیں پیدا ہوتی ہیں۔دوسری وجہ یہ ہے کہ ایسی صلاحیتیں انھیں روایتی تعلیم اور پیشہ ورانہ زندگی میں بڑے معرکے سر کرنے میں مددگار اور معاون ثابت ہوتی ہیں‘۔

ڈیجیٹل میڈیا کے اثرات

ایک مناسب سوال ڈیجیٹل کتابوں میں اضافے کے اثرات سے متعلق ہوسکتا ہے۔تاہم تحقیق میں ڈیجیٹل کی اہمیت کو نظرانداز کردیا گیا ہے۔’اگر موجودہ وقت کی بات کریں تو یہ کہنا کہ اشاعتی کتابیں قصۂ ماضی بنتی جارہی ہیں، تو ایسا کہنا قبل از وقت ہوگا‘۔ اس سلسلے میں محققین کا کہنا ہے کہ دنیا کی بڑی ڈیجیٹل لائبریریاں ، کم ازکم اس وقت، دنیا کی بڑی پیپر لائبریریوں کے برابر ہیں۔ ’ہم نے تحقیق میں دیکھا کہ جن گھروں میں ڈیجیٹل خواندگی زیادہ پائی جاتی ہے، وہاں لائبریری میں موجود کتابوں کی تعداد بھی اتنی ہی زیادہ تھی۔ ڈیجیٹل اپنی جگہ لیکن کاغذی کتابوں کا اثر آنے والے وقتوں میں بھی برقرار رہے گا‘۔