زحل کے رازوں سے پردہ اُٹھتا جارہا ہے

March 04, 2019

زحل ہمارے نظامِ شمسی کا چھٹا سیارہ ہے جو مشتری کے بعد باقی آٹھ سیاروں میں سائز میں دوسرے نمبر پر ہے۔ زحل کے گرد رنگز یا حلقوں کا ایک مکمل سسٹم ہے، جس کے باعث اسے دیگر سیاروں میں انفرادیت حاصل ہے۔ اس وسیع رنگ سسٹم کو 1610 میں مشہور سائنسدان گلیلیو گلیلی نے دریافت کیا تھا ۔1659 سے 1666کے دوران کرسچیئن ہائیجنز نے زحل کے رنگ سسٹم پر مزید تحقیق کرتے ہوئے ان کی اصل نیچر دریافت کرنے کے علاوہ اس کا سب سے بڑا سٹیلائٹ یا سیارچہ ' ٹائٹن 'بھی دریافت کیا ۔ اس کی تحقیق کے مطابق زحل کے حلقوں میں دو زیادہ چوڑے حلقے تھے جنہیں ہائیجنز نے 'اے ' اور ' بی حلقوں کے نام دیئے ،جب کہ دو نسبتا ًپتلے دکھائی دینے والے حلقوں کو بالترتیب 'سی اور 'ڈی کے ناموں سے منسوب کیا گیا ۔

چوں کہ زحل کی گردش کرنے کی رفتار انتہائی تیز ہے اس وجہ سے اس کی شکل ناریل کی طرح کروی ہے۔اور یہ نیم رواں حالت میں ہے یعنی نہ تو ٹھوس اور نہ ہی مائع ۔بلکہ ان دونوں کا مجموعہ ، جیسے ایگر جیلی ،جو ربڑکی طرح کا نرم اور ٹھوس ہوتا ہے ،مگر اس سے مائع نفوذ کر سکتا ہے۔ زحل کی آ ب و ہوا میں ہائیڈروجن کی بہتات ہے اور اس کی چٹانی زمینی تہہ (کور) کے اوپر دھاتی ہائیڈروجن کی ایک تہہ ہے ،جس کے نیچے ’’سپر کریٹیکل ہائیڈروجن مالیکیولز‘‘ کی تہہ موجود ہے ۔کرسچیئن ہائیجنز کی دریافت کے چند سالوں بعد 1671ءمیں ڈومینیکو کیسینی نے زحل کے حلقوں اے اور بی کے درمیان خلا دریافت کیا ،جسے انہیں کے نام پر’’ 'کیسینی ڈویژن‘‘ 'کا نام دیا گیا۔1789 ءمیں ولیم ہرشل نے ان حلقوں کی موٹائی کو ناپتے ہوئے اس کے دو چاند دریافت کیئے جو 'ای رنگ کے اندرتھے۔ ان چاندوں کو میماس اور انسلیدس کے نام دیئے گئے۔ زحل کا یہ ای رنگ باہر کی جانب واقع دوسرا بڑا حلقہ ہے ،جس کے اندر کل پانچ چاند ہیں ۔یہ تمام کروی شکل کے چاند ہیں جن کی کثافت کم ہے اور ان کی زیادہ تر سطح پانی اور برف پر مشتمل ہے، جس کے ساتھ ایک چھوٹی سلیکا کی اندرونی تہہ یا کور بھی ہے۔

زحل اور اس کے حلقوں ،چاند وں اور سیٹلائٹ کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لیے ا مریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا اور یورپین ا سپیس ایجنسی نے مل کر ایک خلائی منصوبے کا آ غاز کیا ،جسے’’ 'کیسینی ہائیجنز‘‘ ( cassini Huygens)مشن کا نام دیا گیا ہے ۔ اس منصوبے کے تحت کیسینی خلائی گاڑی کو 1997 ءمیں زحل کی جانب بھیجا گیا جو سات سال سفر کرنے کے بعد 2004 ءمیں زحل کے مدار میں داخل ہوئی ۔ اس ا سپیس کرافٹ کو زحل کی جانب بھیجنے کا بنیادی مقصد اس کے حلقوں کے ڈھانچے اور حرکات (ڈائنامکس )کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے علاوہ یہاں کے ماحول ، آب وہوا ، زحل کے منجمد سیارچے اور اس کی جغرافیائی تاریخ کے بارے میں معلومات حاصل کرنا تھا۔ اگرچہ کیسینی خلا ئی گاڑی کو ستمبر 2017 ءمیں اسی سیارے کی سطح سے ٹکرا کر تباہ کر دیا گیا تھا، مگر اس سے جو معلومات حاصل ہوئی تھیں ان پر اب تک تحقیقات جاری ہیں اور آئے روز کوئی نہ کوئی نئی دریافت یا انکشاف دنیا بھر کے ماہرین کی توجہ کا مرکز بنا ہو تا ہے۔

اب حال ہی میں ماہرین نے مزید تحقیقات سے زحل سے متعلق کچھ نئی معلومات حاصل ہوئی ہیں۔ جن کے مطابق زمین کے مقابلے میں اس کا سائز کئی گنا بڑا ہےاور اس سیارے کا ایک دن 10 گھنٹے ،33 منٹ اور 38 سیکنڈز پر مشتمل ہے ،جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ کتنی تیز رفتار کے ساتھ گھومتا ہے ۔ایک رپورٹ کے مطابق زحل کے مدار کا رداس (radius) تقریباً 58 ہزار کلو میٹر ہے جو زمین کے رداس کے مقابلے میں 9 گنا زیادہ بڑا ہے ۔اسی وجہ سے زحل پر دن زمین کے آدھے دن سے بھی چھوٹا ہوتا ہے ۔گر چہ سائنس دان زحل کے بارے میں معلومات کافی عر صے سے حاصل کررہے ہیں اور اس سے پہلے 1980 ء میں وائجر اور 2000 ء میں کیسینی اسپیس کرافٹ سے جو مواد حاصل ہوا تھا ،اس سےزحل کے ایک دن کا جو دورانیہ معلوم کیا گیا ۔اُس میںموجودہ دورانیے سے 20 منٹ کا فرق ہے ،کیوں کہ پہلے اس کے لیےریڈیو اسپیکٹر ومیٹر کا طریقے کار اختیار کیا گیا تھا ۔عمو ماً سائنس دان جب کسی سیارے یا گرد ش کا وقت یا وہاں کا دورانیہ معلوم کرنا چاہتے ہیں تو وہ اس سیارے کی مقنا طیسی فیلڈ میںٹلٹ یا جھکائو کی مقدار معلوم کرتے ہیں ،مگر زحل پریہ طر یقے کار لاگو نہیں ہوتا ،کیوں کہ اس میں ٹلٹ بالکل بھی نہیں ہے اور اس کی فیلڈ ،سیارےکے ایکسز آف روٹیشن کے ساتھ بالکل ہموار یا ایک ہی لائن میں ہے ۔علاوہ ازیں زحل کے حلقے بھی ہمیشہ سے سائنس دانوں کی توجہ کا مرکز رہے ہیں اور وہ ان کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کے لیے مضطرب رہتے ہیں ۔

1993 ءمیں زحل پر تحقیق کرنے والے سائنس دانوں نے یہ امر دریافت کیا تھا کہ یہاں پر زیر ِ زمین حرکیات یا سیسمک ایکٹیوٹیز کی مقدار بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے اس کی گریویٹی یا کششِ ثقل میں تیزی سے تبدیلی آر ہی ہے اس وجہ سے اس کے گرد حلقے یا رنگز بھی سکڑتے جارہے ہیں۔ 2004 ءمیں کیسینی خلائی گاڑی سے حاصل ہونے والی زحل کے حلقوں کی بہت قریبی تصویروں سے یہ معمہ حل کرنے میں مدد ملی۔ زحل کے حلقوں میں ایک خاص مقام پر گردش کرتے ہوئے برف کے ذرات جو زحل کی سطح سے کئی میٹر بلند اچھلنے کے باعث رنگز یا حلقوں میں شامل ہوتے رہتے ہیں ۔ مدار میں گردش کے دوران کسی مخصوص وقت میں اتنی توانائی حاصل کر لیتے ہیں کہ ان سے واضح نظر آنے والی موجیں تشکیل پاتی ہیں ۔ سائنس دانوں نے ان موجوں کا تفصیلی مشاہدہ کر کے اور طویل اعداد و شمار کے بعد بلا آخر زحل پر ایک دن کے دورانیہ کا درست وقت معلوم کر لیا ہے، جس کے لیے اسی گردشی سیارے کی اندرونی گردش میں لوٹا یا گیا ہےاور پھر حساب و کتاب کیے گئے۔

طویل عر صے سے زحل پر تحقیق کرنے والے ناسا کے سائنس دانوں کے مطابق حال ہی میں حاصل کی گئی معلومات کی مدد سے ماہرین کو اس سیارے کے ماحول کو مزید قر یب سے جاننے میں مدد ملے گی ۔ماہرین کا خیال ہے کہ زحل کی سطح کی اوپری تہہ زمین کے کل ماس سے پندرہ فی صد تک زیادہ ہے ،جس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے اوپر مائع ہائیڈروجن کی تہوں کے کئی فیسز ہیں ۔ واضح رہے کہ ان کی حقیقت سے سائنس دان اب تک ناواقف ہیں ۔گر چہ کیسینی خلائی گاڑی سے انہیں زحل اور اس کے چاند انسلیدس کی بہت قریبی تصاویر اور معلومات حاصل ہوئی تھیں ،مگر سائنس دان اب تک زحل کی سطح اور گردش کے معمے کو حل نہیں کرسکے ۔ان کا خیال ہے کہ زحل اپنے مدار کے گرد کسی بال کی طرح گھومتا ہے ،مگر اندر سے اس کی سطح پیا ز کی مانند ہے ،جس میں تہہ در تہہ پر مشتمل ایک بہت موٹا کور ہے اور ان میں سے ہر تہہ مختلف رفتار سے گھومتی ہے ۔ماہرین کو اُمید ہے کہ وہ جلد ہی مزید تحقیق سے زحل کی ان تہوں کے معمے کو حل کرنے میںکام یاب ہو جائیں گے ۔