ایف سی اسپورٹس گالا: دہشت گردی کے خلاف امن کی جیت

March 17, 2019

ایونٹ کے دوران منعقد ہونے والا کھیل

پاکستان کم و بیش گزشتہ دو دہائیوں سے دہشت گردی کا شکار ہے اور اب تک ہزاروں پاکستانی باشندے اس عفریت کی بھینٹ چڑھ چُکے ہیں۔ مُلک کی مشرقی و مغربی سرحدوں پر دہشت گردوں کے خلاف آج بھی جنگ جاری ہے اور ماضی کی حکومتوں کی عاقبت نا اندیشی کے باعث پوری قوم ہی کو اس کڑی آزمایش سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ یاد رہے کہ افغانستان میں سوویت یونین (موجودہ رُوس) کی جارحیت سے قبل پاکستان کی مغربی سرحد کو محفوظ تصوّر کیا جاتا تھا، لیکن اس واقعے کے بعد سے قبائلی اضلاع اور افغانستان میدانِ جنگ بن گئے اور آج دُنیا بَھر کی خفیہ جنگیں اسی خطّے میں لڑی جارہی ہیں۔ سوویت یونین کی پسپائی کے بعد افغانستان میں مختلف وار لارڈز کے درمیان خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ بعد ازاں، مُلک میں چند برسوں کے لیے طالبان کی حکومت قائم ہوئی، لیکن پھر نائن الیون کا واقعہ پیش آنے کے بعد امریکا اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان پر چڑھائی کر دی۔امریکا اور اس کے اتحادیوں نے کم و بیش 17برس تک افغان طالبان سے جنگ جاری رکھی، لیکن انہیں بھی سوویت یونین کی طرح ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی مشرقی سرحد کی طرح اس کی مغربی سرحد بھی گزشتہ 3دہائیوں سے غیر محفوظ ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران پاکستان کے قبائلی اضلاع دہشت گردوں کی جنّت بن گئے۔ تاہم، پاک فوج کی اَن تھک جدوجہد اور قربانیوں کے باعث اب یہاںامن قائم ہو چُکا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں 70ہزار سے زاید پاکستانی باشندے لقمۂ اجل بنے، جب کہ ہزاروں سیکوریٹی افسران و اہل کاروں نے جامِ شہادت نوش کیا۔ اس اعصاب شکن جنگ میں پاک فوج کے جوانوں نے قوم کو کبھی مایوس نہیں کیا اور کئی مواقع پر اپنی جان کی قیمت پر خود کُش حملہ آوروں کو روک کر مُلک کو بڑی تباہی سے بچایا۔

پاک فوج کی فرنٹیئر کور اور خیبرپختون خوا پولیس کی طرح فرنٹیئر کانسٹیبلری کے جوان بھی مُلک میں امن و امان کے قیام کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں بھی ہر اول دستے کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ سرحدوں کی حفاظت ہو یا اندرونِ مُلک امن وامان کو برقرار رکھنا، ایف سی کے جوان ہمہ وقت چوکس و چوکنّا رہتے ہیں۔ مُلک کی خاطر جان نچھاور کرنے والے ایف سی کے افسران اور جوانوں کی فہرست خاصی طویل ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں اب تک اس فورس کے

لگ بھگ361افسران اور اہل کار اپنی جانیں قربان کر چُکے ہیں۔ ان شہداء کی فہرست میں ایف سی کے سابق کمانڈنٹ، صفوت غیّور بھی شامل ہیں، جنہیں پشاور میں ہونے والے ایک خود کُش حملے میں شہید کیا گیا۔ نیز، ڈی او ایف سی، امیر بادشاہ، اے ڈی او، کریم خان خٹک اور اے ڈی او، میر ولی خان وزیر بھی قوم پر جان نچھاور کرنے والوں میں شامل ہیں۔ یاد رہے کہ فرنٹیئر کانسٹیبلری کے جوان صرف خیبر پختون خوا ہی میں نہیں، بلکہ کراچی و اسلام آباد سے لے کر گلگت و خنجراب تک فرائض انجام دے رہے ہیں۔ایف سی کے موجودہ کمانڈنٹ، معظّم جاہ انصاری نے چند ماہ قبل اس فورس کی کمان سنبھالی، تو انہیں فرنٹیئر کانسٹیبلری کے جوانوں کو صحت مندانہ ماحول فراہم کرنے کے لیے ان کے درمیان کھیلوں کے مقابلے منعقد کرنے کی ضرورت کا احساس ہوا۔ اپنی اس سوچ کو عملی جامہ پہناتے ہوئے ایف سی کمانڈنٹ نے تقریباً 14برس بعد طویل عرصے تک دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے والے اپنے بہادر جوانوں کو اسپورٹس گالا کے ذریعے کھیلوں کی سرگرمیوں میں حصّہ لینے کا بھرپور موقع فراہم کیا۔ یہاں ایک دِل چسپ اَمر یہ بھی ہے کہ اس سے قبل ایف سی کی تاریح میں اتنے بڑے پیمانے پر کھیلوں کے مقابلوں کا انعقاد کبھی نہیں ہوا ۔ اسپورٹس گالا میں ایف سی کے 17اضلاع کے 5ہزار جوانوں نے بھرپور انداز میں حصّہ لیا۔ 24سے 26فروری تک جاری رہنے والے ان سہ روز مقابلوں میں 17اضلاع کی ٹیموں کو 4پُولز میں تقسیم کر کے ایف سی کے جوانوں کو مختلف کھیلوں میں ایک دوسرے کے ساتھ مقابلے کا موقع فراہم کیا گیا۔ اضلاع کے درمیان پُول میچز کا آغاز 11فروری 2019ء کو چارسدّہ کے علاقے، شب قدر، اُوگی، ٹانک اور بنّوں میں ہوا، جب کہ 24فروری سے 26فروری تک شب قدر میں افتتاحی و اختتامی تقریب کا انعقاد کیا گیا اور اسی دوران سیمی فائنلز اور فائنل مقابلے بھی منعقد ہوئے۔

اسپورٹس گالا کی افتتاحی تقریب میں گورنر خیبرپختون خوا، شاہ فرمان مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے مدعو تھے، جب کہ وزیرِ مملکت برائے داخلہ، شہریار آفریدی نے اختتامی تقریب میں شرکت کرنا تھی، لیکن وہ بھارتی جارحیت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صُورتِ حال اور موسم کی خرابی کے باعث شب قدر نہ پہنچ سکے۔ افتتاحی تقریب کا آغاز مشعل روشن کر کے کیا گیا اور یہ اعزاز سابق ایف سی کمانڈنٹ، صفوت غیّور شہید کے صاحب زادے، عثمان نے حاصل کیا۔ اس موقعے پر خٹک و محسود رقص، پائپ اینڈ براس بینڈ اور آتش بازی کے مظاہرے کے علاوہ پریڈ کا بندوبست بھی کیا گیا، جب کہ کھیلوں میں کرکٹ، فُٹ بال، والی بال، رسّا کشی، 100 ،200اور 400میٹرز کی ریلے ریس، لانگ جمپ، شاٹ پُٹ، جیولائن تھرو، شوٹنگ ایپلی کیشن فائر، گروپنگ فائر اورا سنیپ شوٹنگ کے مقابلے شامل تھے۔ مقابلوں کے اختتام پر ضلع ٹانک کو ایف سی اسپورٹس گالا2019ء کی بہترین ٹیم کا اعزاز دیا گیا اور ایونٹ کے آخری روز ایف سی جوانوں کے لیے بڑے کھانے، مزاحیہ خاکوں اور گانوں سمیت دیگر تقریبات کا اہتمام کیا گیا۔

ایونٹ کے دوران منعقد ہونے والا کھیل

ایف سی اسپورٹس گالا میں حیات آباد، باڑا، شب قدر، سوات، مالاکنڈ، بنّوں، مانزئی، داسو، ٹانک، درّہ زندہ، دروبہ، اوگی، گلگت، کراچی، اسلام آباد، ہنگو اور پشاور ہیڈ کوارٹرز کی ٹیموں نے حصّہ لیا۔ افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے گورنر خیبر پختون خوا، شاہ فرمان کا کہنا تھا کہ’’ یہ منظر میرے لیے انتہائی خوش کُن ہے کہ فرنٹیئر کانسٹیبلری کے جوان نہایت جوش و ولولے سے اسپورٹس میلے میں حصّہ لے رہے ہیں۔ پچھلے چند برسوں کے دوران دہشت گردوں نے کھیل کے میدانوں کو ویران کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا، مگر جوانوں کا یہ ولولہ اس اَمر کی دلیل ہے کہ ہم نے اُن کے ناپاک عزائم خاک میں ملا دیے۔‘‘ گورنر خیبر پختون خوا نے ایف سی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اس سطح پر کھیلوں کے مقابلوں کے انعقاد پر کمانڈنٹ فرنٹیئر کانسٹیبلری کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہا کہ’’ اپنے نوجوانوں کی فلاح و بہبود کو اس قدر اہمیت دینا باعثِ مسرّت ہے۔ اسپورٹس گالا اُن جوانوں کی یاد میں منعقد کیا گیا ہے ، جنہوں نے اپنی جانوں پر کھیلتے ہوئے پاکستان، بالخصوص خیبر پختون خوا میں امن کا سورج طلوع کیا۔ ہمیں اپنی حفاظت پر مامور اُس ایف سی پر فخر ہے کہ جس کے سربراہ سے لے کر جوانوں تک نے اپنی زندگی کو امن کی خاطر قربان کیا، جن میں کمانڈنٹ، صفوت غیّور، ڈی او ایف سی، امیر بادشاہ، اے ڈی او، کریم خان خٹک، اے ڈی او، میر ولی خان وزیر اور 361جوان شامل ہیں۔ ہم شہداء کے ورثا کے مقروض ہیں ۔ اللہ تعالیٰ شہداء کے درجات بلند فرمائے۔‘‘ اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’’ کھیلوں کے میدان کا آباد ہونا کسی بھی قوم کے لیے امن کی ضمانت ہے۔ مَیں مقابلوں میں حصّہ لینے والے اور میدان میں موجود جوانوں کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔ ہمارے لیے دہشت گردوں کے خلاف ایف سی کی جیت ان مقابلوں میں ہونے والی ہار، جیت سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ جوانوں کی صلاحیتوں میں نکھار پیدا کرنے کے لیے اس قسم کے تفریحی مقابلوں کا انعقاد ہوتا رہنا چاہیے۔‘‘

معروف فن کار، آصف خان، اسمٰعیل شاہد اور سید رحمٰن شینوساتھی اداکاروں کے ساتھ

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرنٹیئر کانسٹیبلری کے کمانڈنٹ، معظّم جاہ کا کہنا تھا کہ ’’گورنر خیبر پختون خوا، شاہ فرمان کی ایف سی اسپورٹس گالا میں شرکت افسران اور جوانوں کے لیے باعثِ مسرّت ہے۔ اسپورٹس گالا 2019ء میں ایف سی کے تمام اضلاع کی شرکت اس بات کی مظہر ہے کہ دہشت گردوں کے عزائم خاک میں مل گئے ہیں۔ یہ اسپورٹس گالا دراصل خوشی کا میلہ ہے، جو اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ مُٹّھی بَھر دہشت گرد بندوق کے زور پر ہماری ثقافت، رنگا رنگی اور خوشی و مسرّت ہم سے نہیں چھین سکتے۔ اسپورٹس گالا 2019ء کے انعقاد کا مقصد اُن افسران اور جوانوں کی یاد منانا ہے، جنہوں نے اس پاک دھرتی کی امن کی تصویر میں اپنے خُون سے رنگ بھرا۔ ایف سی نے انتہائی محدود وسائل کے باوجود اپنے جوانوں کو ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کیا ہے کہ جہاں وہ اپنی جواں مَردی، فرض شناسی اور نظم و ضبط کی اعلیٰ اقدار اُجاگر کرنے کے لیے اپنی خداداد صلاحیتوں کا مظاہرہ کرسکتے ہیں۔ مَیں اس موقعے پر کھیلوں کے مقابلوں میں حصّہ لینے والے تمام جوانوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں۔

فرنٹیرکانسٹیبلری کے کمانڈنٹ، معظم جاہ انصاری افتتاحی تقریب سے خطاب اور مہمانِ خصوصی، گورنر خیبرپختون خوا، شاہ فرمان کو سووینیر پیش کرتے ہوئے
فرنٹیئر کانسٹیبلری، تاریخ کے آئینے میں

فرنٹیئر کانسٹیبلری کا قیام برطانوی دَورِ حکومت میں عمل میں آیا اور 1913ء میں اس پیرا ملٹری فورس کو شمال مغربی سرحدی صوبے (موجودہ خیبر پختون خوا) سے منسوب کیا گیا۔ ایف سی، سرحدی فوجی پولیس (بارڈر ملٹری پولیس) اور سمانا رائفلز (ایس آر) پر مشتمل تھی اور ان دونوں فورسز کی ذمّے داری صوبۂ سرحد کے بندوبستی علاقوں اور قبائلی علاقہ جات کے درمیان موجود سرحد کی حفاظت کرنا تھا۔ فرنٹیئر کانسٹیبلری کا بنیادی کام خیبر پختون خوا اور قبائلی علاقہ جات کے درمیان سرحد پر جرائم کی روک تھام ہے۔ ایف سی کا ماٹو ’’پہ برتگ، پہ لرتگ، پہ غرتگ‘‘ ہے۔ یعنی چاہے ہم وار یاناہم وار علاقے ہوں، چاہے پہاڑ یا چٹانیں ہوں، ایف سی نے ہر جگہ ہی اپنے فرائض سر انجام دینے ہیں۔ ایف سی کو ’’سرحدی ملیشیا‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اور یہ بہ وقتِ ضرورت فوجی اور پولیس آپریشنز میں بھی مددگار ثابت ہوتی ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد فرنٹیئر کانسٹیبلری ایکٹ، 1951ء کے تحت فرنٹیئر کانسٹیبلری کو ایک آزاد شہری مسلّح فورس کے طور پر قائم کیا گیا اور اس قانون کی روشنی میں 1958ء میں ایف سی کے قواعد و ضوابط تیار کیے گئے۔ چُوں کہ ماضی میں پولیس قبائلی علاقوں سے ملحقہ بندوبستی علاقوں میں آپریشن نہیں کر سکتی تھی، لہٰذا ایف سی کو قبائلی علاقہ جات اور شہری علاقوں کے درمیان واقع بندوبستی علاقوں میں تعیّنات کیا گیا، تاکہ قبائلی علاقوں سے کوئی دہشت گرد شہری علاقوں میں داخل نہ ہو سکے۔ نیز، پاکستان میں قائم مختلف ممالک کے سفارت خانوں کی حفاظت بھی ایف سی کی ذمّے داریوں میں شامل ہے۔ ایف سی کا شب قدر ٹریننگ سینٹر 1922ء میں قائم ہوا، جہاں جوانوں کو تربیت فراہم کی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں، 1985ء میں حیات آباد میں ایف سی کا ایک مرکز قائم کیا گیا۔

ایف سی کاتنظیمی ڈھانچا

فرنٹیئر کانسٹیبلری کے سینئر افسران کا تعلق محکمۂ پولیس سے ہوتا ہے۔ ایف سی کے سربراہ کو ’’کمانڈنٹ ایف سی‘‘ کہا جاتا ہے اور یہ عُہدہ انسپکٹر جنرل آف پولیس (بی پی 22گریڈ) کے مساوی ہوتا ہے، جب کہ ڈپٹی کمانڈر، ڈپٹی انسپکٹر جنرل کےمساوی ہوتا ہے۔ ایف سی کا ضلعی افسر، سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس اور اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ آفیسر، اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس کے برابر ہوتا ہے۔