تاپی گیس منصوبہ

March 14, 2019

ترکمانستان سے افغانستان، پاکستان اور بھارت کو قدرتی گیس کی ترسیل کا منصوبہ (تاپی) 1995ء میں بنایا گیا تھا لیکن دہشت گردی جیسی رکاوٹوں کے باعث اس میں تاخیر ہوئی اور محض ترکمانستان نے 2015ء میں اندرونِ ملک پائپ لائن کا کام شروع کیا، تاہم منصوبے کی افادیت کے پیشِ نظر اس دوران چین نے بھی اس کا حصہ بننے کی خواہش ظاہر کی۔ اس شراکت داری سے اخراجات میں کمی آئے گی۔ منگل کے روز اسلام آباد میں پاکستان اور ترکمانستان کے حکام نے تاپی کے ہوسٹ معاہدے پر دستخط کر دیئے۔ مقررہ پروگرام کے تحت منصوبے کی تکمیل کا ہدف 2020ہے، جسے بعد ازاں چین تک پہنچایا جائے گا۔ پاکستان گزشتہ دو دہائیوں سے گیس کے شدید بحران کا شکار چلا آرہا ہے جس کا اثر اس کی ہوشربا حد تک بڑھنے والی قیمتوں پر بھی پڑا ہے، لہٰذا منصوبے کی بر وقت تکمیل ماضی کے حالات کی روشنی میں موجودہ حکومت کے لئے ایک چیلنج سے کم نہیں، جسے ہر حال میں پورا کرنا ضروری ہے۔ گیس پائپ لائن کا تخمینہ 1814کلو میٹر اور اس کا قطر 56انچ ہے۔ منصوبہ دو حصوں میں مکمل کیا جائے گا۔ پہلے مرحلے میں کمپریسر کے بغیر پائپ لائن بچھائی جائے گی۔ یہ پروجیکٹ وطنِ عزیز کو درپیش توانائی کے دیرینہ بحران پر قابو پانے میں سنگِ میل ثابت ہوگا۔ گیس فیلڈ کی ڈویلپمنٹ پر 12تا 15ارب روپے سے زائد اور پائپ لائن بچھانے پر 8سے 10ارب روپے لاگت آئے گی۔ منصوبے کی 85فیصد لاگت ترکمانستان جبکہ پانچ پانچ فیصد افغانستان، پاکستان اور بھارت برداشت کریں گے۔ جس کیلئے ایشیائی ترقیاتی بینک تعاون کرے گا۔ اسی طرح ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ گزشتہ 11برس سے سرد خانے میں پڑا ہے۔ حال ہی میں حکومت نے غیر ملکی کمپنیوں کو پاکستان آکر اپنی حفاظت میں گیس تلاش کرنے کی پیشکش کی ہے۔ ایسا ممکن ہونے کی صورت میں وہ وقت دور نہیں جب وطنِ عزیز میں چھپے ہوئے قدرتی گیس کے وسیع تر ذخائر دریافت ہوں گے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998