کیا 38 سالہ جیسنڈا ناممکن کو ممکن بنا سکیں گی

March 21, 2019

38سالہ جیسنڈا آرڈرن سر پر دوپٹہ لئے، سیاہ لباس پہنے سوگوار خاندانوں سے گلے مل رہی ہیں۔ معافی مانگ رہی ہیں۔ مگر کرائسٹ چرچ کا سانحہ اتنا اندوہناک ہے کہ نیوزی لینڈ کی منتخب وزیراعظم اس کے اثرات دور کرنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہیں۔ دنیا بھر میں جیسنڈا مقبول ترین لیڈر بن کر ابھری ہیں۔ رضا علی عابدی نے تو انہیں فرشتہ بھی قرار دے دیا ہے۔ پاکستان سمیت مسلم ملکوں کے لوگ اپنے حکمرانوں کو عبرت دلا رہے ہیں کہ ایک تم ہو کسی بھی غمزدہ کے گھر نہیں جاتے۔ ایک یہ حکمراں ہے جو گھر گھر جا رہی ہے۔ غم بانٹ رہی ہے۔ دہشت گرد برینٹن ہیریسن ٹیرنٹ کی وحشیانہ فائرنگ نے پوری دنیا کو دہلا کر رکھ دیا ہے۔ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ عام طور پر مہذب، متمدن اور پُرامن مملکت کہلاتے ہیں۔ آج کل پاکستان سمیت اکثر ملکوں کی پیشہ ور تربیت یافتہ نئی نسلیں ترکِ وطن کرکے یہیں آباد ہونا چاہتی ہیں مگر اس ایک ہولناک قتلِ عام نے سب کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔

وزیراعظم جیسنڈا اپنے خطّے میں ہر لمحہ مسکراتی لیڈر کے طور پر مشہور ہیں۔ 37سال کی عمر میں انہیں وزارتِ عظمیٰ میسر آ گئی۔ شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے بعد وہ دوسری وزیراعظم ہیں جو تخت نشیں ہوئے ہی ماں بنی ہیں اور ایک بیٹی کو جنم دیا ہے۔ پولیس آفیسر کی بیٹی، ٹی وی میزبان کی شریک حیات، بچپن سے کتابوں کی دلدادہ۔ یقیناً یہ مطالعے کی دین ہے کہ اس نے سوگوار خاندانوں کے پاس جاکر شریکِ غم ہونے کو اپنا فرضِ اولیں جانا۔

کرائسٹ چرچ کے قتلِ عام نے نیوزی لینڈ کے تعصبات اور تضادات کو نمایاں کر دیا ہے۔ قاتل کا اگرچہ تعلق آسٹریلیا سے بتایا جا رہا ہے مگر نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا دونوں میں نئے تارکین وطن اور بالخصوص مسلمانوں کے خلاف بہت زیادہ نفرتیں پیدا کی جا رہی ہیں۔ پہلے بھی ان نو واردان کو قدیم باشندے اپنے روزگار کے لئے چیلنج محسوس کر رہے تھے۔ لیکن 9/11کے بعد تو ان منفی رویوں میں بہت شدت آگئی ہے۔ عالمی اداروں کی رپورٹیں کہتی ہیں کہ قاتل برینٹن سمیت یہاں کے نوجوانوں کو تارکینِ وطن سے یہ خوف لاحق ہے کہ وہ زیادہ تعلیم اور تربیت یافتہ ہیں۔ اس لئے وہ ان سے آگے نکل جائیں گے۔ ملازمت دینے والے سرکاری اور غیر سرکاری ادارے ان نوواردان کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ زیادہ تر کو پہلے ادنیٰ ملازمتیں اختیار کرنا پڑتی ہیں، اپنی اہلیت اور تعلیم کے مطابق ملازمتیں بہت کم ملتی ہیں۔ یہی رپورٹیں بتاتی ہیں کہ نفرت بھرے پوسٹر بھی چسپاں کئے جاتے ہیں۔ جن میں تارکینِ وطن کی قومیتوں یعنی چینی، ایشیائی، بحر الکاہل کے علاقوں کا حوالہ دے کر کہا جاتا ہے ہیپاٹائٹس کا ٹیسٹ کروا لو۔ چینیو! تھوکنا منع ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق مسلمان تیزی سے بڑھتا ہوا مذہبی گروپ ہیں۔ جن میں 1991سے 2006کے درمیان چھ گنا اضافہ ہوا ہے۔ 15سے 29سال کی عمر کے مسلمان نوجوانوں کی آبادی 2001سے 2013 تک 50فیصد بڑھی ہے۔ مقامی کیویز خوف زدہ ہیں۔ وہ اپنے گھروں میں نفرت کی باتیں کرتے ہوں گے تو اسکولوں میں ان کے بچے مسلم بچوں پر آوازیں کستے ہیں۔ تنگ کرتے ہیں۔ لندن میں جب بم دھماکے ہوئے تو ان رویوں میں مزید شدت آگئی اور باآواز بلند یہ جملہ کہا جاتا ہے ’’اپنے ملک واپس جائو‘‘۔ وکٹوریہ یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق اصلی نیوزی لینڈر مسلمانوں کو پست ذہن قرار دیتے ہیں اور مسلم اکثریت والے ملکوں کو ذہنی طور پر پسماندہ قومیں مانتے ہیں۔

سفاک قاتل برینٹن کے بارے میں یہ تاثر ذہن نشین کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اس کا پہلے کوئی مجرمانہ پس منظر نہیں ہے۔ آسٹریلیا میں مقیم والدین کہہ رہے ہیں کہ وہ جب یہاں سے گیا تو ایسی کوئی شدت پسندی اس کے کردار میں نہیں تھی۔ اس نے مسلمانوں کے خلاف کبھی کوئی بات نہیں کی۔ نیوزی لینڈ میں اس کے پڑوسی بھی یہی تاثر دے رہے ہیں لیکن اس نے جس شدت کا جرم کیا ہے، یہ اچانک نہیں ہو سکتا۔

وقت کرتا ہے پرورش برسوں

حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ پاکستان، ترکی، بلغاریہ اور دوسرے ملکوں میں آتا جاتا رہا ہے۔ یہ اشارے دیئے جا رہے ہیں کہ یورپ اور ایشیا کے ان ملکوں میں جانے کے بعد اس میں انتہا پسندی آئی ہے۔ یہ تحقیقات کا رُخ موڑنے کی ایک کوشش ہو سکتی ہے۔ ترک حکومت نے اس کی ترکی میں موجودگی کے حوالے سے کچھ واقعات بتائے بھی ہیں لیکن نیوزی لینڈ میں نسل پرستی میں اضافہ ہوا ہے۔ ایک باقاعدہ مرکز قائم کیا گیا جہاں نسل پرستی اور لسانی تعصب کے حوالے سے شکایات درج کروائی جاتی ہیں۔ گزشتہ 10سال میں 3ہزار سے زیادہ شکایات کا اندراج ہوا ہے۔ حکومت اپنے طور پر کوشش کر رہی ہے لیکن خود حکمراں پارٹی کے اندر بھی ایسے عناصر موجود ہیں۔ ایک طرف بڑے رقبے میں کم آبادی کا مسئلہ ہے۔ 268021مربع کلومیٹر پر صرف 49لاکھ۔ ایک کلومیٹر میں قریباً 17باشندے۔ 1961میں یہ تناسب فی کلومیٹر 10افراد تھا۔ زیادہ رقبے والے ممالک کو مزید افرادی قوت درکار ہوتی ہے لیکن ان میں سے اکثر تنگ نظر اور متعصب ہیں۔ کسی حد تک کینیڈا میں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ دوسرے ملکوں سے آنے والے اپنی تہذیب، اپنی عادتیں، اپنے عقیدے لے کر آتے ہیں۔ ان کا احترام کرنا چاہئے اور کثیر الثقافتی معاشرے کو ہی اپنی منزل سمجھنا چاہئے۔ رپورٹوں کے مطابق نیوزی لینڈ کے سماجی ڈھانچے میں امتیاز اور تفریق بڑھ رہی ہے۔ بازاروں میں، چائے خانوں میں، میکدوں اور نائٹ کلبوں میں اکثر تنازعات جنم لیتے ہیں۔ اسے نئے دور کی نسل پرستی کا نام دیا جا رہا ہے۔

اس میں خطرناک عنصر یہ شامل ہو گیا ہے کہ اگر صلیبی جنگوں والی صدیوں کا تعصب ذہن میں ہو اور ہاتھ لگ جائیں اکیسویں صدی کے تیز ترین رابطے کے آلات اور جدید ترین ہلاکت خیز ہتھیار تو برینٹن ہیریسن ٹیرنٹ جیسے سفاک قاتل ہی جنم لیتے ہیں۔ یہ لمحۂ فکریہ ساری دنیا کے لئے ہے کہ اکیسویں صدی میں دنیا قبیلوں اور گروہوں میں کیوں بٹ رہی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ جیسے غیر ذمہ دار سپر طاقت کے مالک و مختار بن رہے ہیں۔ نریندر مودی جیسے متعصب، انسانیت دشمن بھارت جیسے بڑی آبادی والے ملک کے وزیراعظم ہیں۔ سوشل میڈیا، انسان دوستی کی اقدار کے بجائے انسان دشمنی کی روایات پھیلا رہا ہے۔ مجرمانہ وارداتوں کے طور طریقے، مہلک ہتھیاروں کی اثر گیری سوشل میڈیا سے ذہنوں میں منتقل ہو رہی ہے۔ کیا اقوام متحدہ اور دوسرے عالمی ادارے ان طوفانوں کے لئے حفظ ماتقدم کی کوششیں کر رہے ہیں؟ کیا یونیورسٹیوں میں تہذیب و تمدن، یگانگت کے درس دئیے جا رہے ہیں؟ سفید فاموں کو اپنی بے بسی کا احساس کیوں ہو رہا ہے۔ کیا انہیں بیسویں صدی انیسویں صدی کے اپنے استعماری مظالم یاد نہیں ہیں؟

38سالہ جیسنڈا کی مسکراہٹ اسی صورت برقرار رہ سکے گی کہ اسے نیوزی لینڈ کے اندر سے بھی تقویت ملے اور دنیا کے دوسرے حصّوں سے بھی۔ کیا دوسرے حکمراں بھی تارکینِ وطن کو جیسنڈا کی طرح کہیں گے They are us؟