بگ بینگ، بلیک ہول اور عورت مارچ

March 21, 2019

حال ہی میں چین نے چاند کے اُس حصے پر تحقیقاتی راکٹ بھیجا ہے جو زمین سے براہِ راست کبھی دکھائی نہیں دیتا۔ چاند زمین کے گرد گردش کرنے کے علاوہ اپنے محور پر بھی گھومتا ہے۔ چونکہ یہ زمین کے بہت قریب ہے، زمین کی کشش اسے جکڑے رکھتی ہے، اس لیے اس کے اپنے محور کے گرد گھومنے کی رفتار زمین کے گرد گردش کے مساوی رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی صرف ایک سائیڈ زمین کی طرف رہتی ہے اور وہی ہمیں نظر آتی ہے۔ دوسری طرف چاند کا وہ حصہ ہے جو زمین سے دکھائی نہیں دیتا۔ 385,000کلومیٹر دور چاند، اس وسیع کائنات میں زمین کا سب سے قریبی ہمسایہ ہے۔ ہمارے قریب ترین سیارہ زہرہ ہے، جو چالیس ملین کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ سورج کا زمین سے فاصلہ ایک سو پچاس ملین کلومیٹر ہے۔ سورج کی روشنی، جس کی رفتار تین لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ ہے، کو زمین تک پہنچنے میں ساڑھے آٹھ منٹ لگتے ہیں۔

کائنات کی وسعت کا تصور بھی محال ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آسمان پر جو ستارے ہم دیکھتے ہیں، اُن میں سے ہمارے قریب ترین ستارہ Proxima Centuari ہے، جو ہم سے 4.2نوری سال کی مسافت پر ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس کی روشنی ہم تک پہنچنے میں 4.2سال لگتے ہیں۔ ہماری کہکشاں، ملکی وے، میں تقریباً 250بلین ستارے ہیں۔ ان میں سے ایک ہمارا سورج ہے، جو ملکی وے کے مرکز سے دور، ایک بازو میں موجود زرد ستارہ۔ ہماری کہکشاں کو بھی کائنات میں کوئی خصوصی حیثیت حاصل نہیں۔ یہ اُن 200بلین کہکشائوں میں سے ایک ہے، جن کا ہمیں اب تک پتا چلا ہے۔

قریب ترین دوسری کہکشاں Andromedaہم سے 2.5ملین نوری سال کے فاصلے پر ہے۔ اس میں تقریباً ایک ٹریلین ستارے ہیں۔ Andromedaکو دور بین کے بغیر خالی آنکھ سے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے بارے میں سب سے پہلے ایران کےدانشور عبدالرحمان ال صوفی نے اپنی کتاب ’’فکسڈ اسٹارز‘‘ میں لکھا تھا۔ چونکہ یہ کہکشاں زمین سے 2.5ملین نوری سال کے فاصلے پر ہے، اس لئے جب عبدالرحمان نے اسے دیکھا تو اس نے دراصل اسے 2.5ملین نوری سال پہلے کی حالت میں دیکھا تھا۔

1932میں امریکی ماہرِ فلکیات، ایڈون ہبل نے دریافت کیا کہ تمام کہکشائیں ایک دوسرے سے دور ہٹ رہی ہیں۔ دور ہٹنے کے ساتھ اُن کی رفتار میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ کائنات پھیل رہی ہے اور اس کے پھیلنے کے ساتھ نئی خلا تخلیق ہو رہی ہے تاہم اگر کائنات پھیل رہی ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ ماضی میں یہ کہکشائیں ایک دوسرے کے قریب ہوں گی۔ اگر آپ وقت میں پیچھے جا سکیں تو آپ ایک ایسے دور بھی پہنچ سکتے ہیں جب ہر چیز ایک دوسرے سے ملی ہوئی تھی۔ پھیلنے کی رفتار کا حساب لگاتے ہوئے سائنسدان پیچھے کی طرف جا کر یہ معلوم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں کہ کائنات 13.8بلین سال پہلے ایک زبردست دھماکے (بگ بینگ) کے نتیجے میں وجود میں آئی تھی۔ اگر کائنات کا آغاز ایک دھماکے کا نتیجہ تھا تو اس دھماکے کے آفٹر افیکٹس بھی ہونے چاہئیں۔ جس طرح کسی دھماکے کے کافی دیر بعد تک توانائی خارج ہوتی رہتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چند سال پہلے دو امریکی سائنسدانوں نے حادثاتی طور پر ان آفٹر افیکٹس کو دریافت کیا۔ انہیں کائناتی وجود کے پسِ منظر میں پائی جانے والی توانائی کا نام دیا گیا۔

ہمارے سورج کا قطر 1.4ملین کلومیٹر ہے۔ یہ اتنا بڑا ہے کہ اس میں دس لاکھ زمینیں سما سکتی ہیں۔ سورج ہمارے نظامِ شمسی کی کمیت کا 99فیصد رکھتا ہے۔ دیگر تمام سیارے، سیارچے اور خلا میں گردش کرتی چٹانیں اور دیگر اجرام مجموعی طور پر ایک فیصد سے بھی کم کمیت رکھتے ہیں۔ چونکہ سورج بہت بڑا ہے، اس کا وزن اس کے مرکز پر بے پناہ بوجھ ڈال کر اسے گرم کر دیتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہائیڈروجن کے ایٹموں کا فیوژن ہوتا ہے جو ہیلیم کے ایٹموں میں بدل جاتے ہیں۔ ہیلیم کے ایٹم انرجی ایفی شنٹ ہوتے ہیں، اس لیے ان کے وجود میں آنے پر زیادہ توانائی خارج نہیں ہوتی۔ کھربو ں ایٹموں کے فیوژن سے خارج ہونے والی یہ ’’تھوڑی سی توانائی‘‘ تھرمو نیوکلیئر ری ایکشن کہلاتی ہے۔ سور ج میں ہونے والا یہ مستقل عمل زمین اور نظامِ شمسی کے دیگر سیاروں کو توانائی پہنچاتا ہے۔ اسی سے زمین پر زندگی کا سلسلہ جاری ہے۔ چاہے ہم کوئلہ یا تیل جلا کر توانائی حاصل کرتے ہیں یا پودوں اور جانوروں سے اپنی بدنی ضرورت کے لئے توانائی حاصل کرتے ہیں، اس کا مآخد سورج ہی ہے۔

سورج پر نیوکلیئر فیوژن کا یہ عمل کوئی پانچ بلین سالوں سے جاری ہے۔ اس پر ہائیڈروجن کا ایندھن ابھی اس قدر ہے کہ یہ مزید پانچ بلین سال تک توانائی فراہم کر سکتا ہے لیکن یہ عمل ہمارے سورج تک ہی محدود نہیں۔ تمام ستارے ہائیڈروجن کو ہیلیم میں تبدیل کرتے اور اس عمل کے دوران روشنی اور حرارت خارج کرتے ہیں۔ ہمارا سورج بھی ان جیسا ایک ستارہ ہے۔ جب ستاروں پر ہائیڈروجن کا تمام ایندھن جل کر ہیلیم میں تبدیل ہو جاتا ہے تو ہیلیم کے ایٹم مل کر کاربن میں تبدیل ہونے لگتے ہیں۔ اس عمل کے دوران درجہ حرارت مزید بڑھ جاتا ہے اور کاربن مزید بھاری ایٹموں میں تبدیل ہونے لگتی ہے لیکن جب یہ سلسلہ کوبالٹ اور لوہے کے ایٹم بننے تک پہنچتا ہے تو آخر کار رک جاتا ہے۔

جب ہائیڈورجن فیوژن ختم ہوتا ہے تو ستاروں کا بیرونی شیل پھیل جاتا ہے۔ ایسے ستارے ریڈ جائنٹ کہلاتے ہیں۔ تقریباً پانچ بلین سال بعد ہمارا سورج بھی ایک ریڈ جائنٹ بن جائے گا اور اس کا پھیلائو ہماری زمین تک پہنچ جائے گا۔ لیکن آخر کار کششِ ثقل داخلی دبائو بڑھائے گی اور یہ سمٹ کر ایک چھوٹے وائٹ ستارے میں تبدیل ہو جائے گا تاہم وہ ستارے جو حجم میں سورج سے بڑے ہوتے ہیں، اُن میں گریویٹی کا دبائو اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ وہ سکڑ کر سفید ستارے سے بھی چھوٹے ہو جاتے ہیں۔ یہ ستارے ایک خوفناک دھماکے کے ساتھ پھٹتے ہیں جسے سپر نووا کہتے ہیں۔ یہ دھماکہ اتنا طاقتور ہوتا ہے کہ یہاں بھاری عناصر، جیسے کہ لوہا، مزید بھاری عناصر، جیسے کہ یورنیم میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ تاہم اپنی کمیت کھونے کے بعد بھی بہت سے ستاروں کا حجم بہت زیادہ رہتا ہے۔ لاہور میں پیدا ہونے والے ایک ماہر طبیعات، سبرامنیم چندرا سکار نے ستاروں پر تحقیق کے دوران معلوم کیا کہ وہ ستارے جو سورج سے چوالیس گنا زیادہ حجم رکھتے ہوں، وہ سکڑ کر نیوٹران اسٹارز میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ ایک نیوٹران اسٹار کا سائز بمشکل ایک کلومیٹر، لیکن کمیت ہمارے سورج سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ اس سے آپ نیوٹران اسٹار کی کثافت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ تاہم بڑے ستارے نیوٹران اسٹار بننے کے مرحلے سے آگے گزر کر بلیک ہول میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ بلیک ہول اتنا کثیف ہوتا ہے کہ اس کی گریویٹی روشنی کو بھی نہیں گزرنے دیتی۔ یہی وجہ ہے کہ اُنہیں دیکھا نہیں جا سکتا۔

جس دوران دنیا دور افتادہ ستاروں، اور کہکشائوں کے اندر جھانک کر توانائی کے مظاہر اور کائنات کے سربستہ راز جاننے کی کوشش کر رہی ہے، ہماری ژولیدہ فکری کا محور انگریزی زبان سیکھنے یا نہ سیکھنے کا ایشو ہے۔ ایسے بچے کیا کرتے ہیں جو صرف انگریز ی جانتے ہیں۔ہم اپنے بچوں کو مثبت، تعمیری اور تجزیاتی تعلیم سے محروم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ تعلیم کا مقصد سوال اٹھانے اور تجزیہ کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا ہوتا ہے لیکن ہم ماضی کو یاد کرنے کو تعلیم سمجھتے ہیں۔ بلیک ہول ذہنوں میں بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔ فکری بالشتیوں کی انا اتنی نازک بن جاتی ہے کہ خواتین کا مارچ اور کچھ نعرے اسے مجرو ح کر سکتے ہیں۔

(صاحبِ مضمون سابق وفاقی وزیر برائے مالیاتی امور ہیں)