پاکستانی سیاسی تھیٹر کی ایک نئی پیش کش

January 12, 2013

قادری صاحب کا لانگ مارچ کامیاب ہو یا ناکام ، اس نے پژ مردگی دور کرتے ہوئے ایک پر لطف تحریک تو پیدا کر دی ہے۔ اوراب صورت ِ حال یہ ہے کہ وفادار چاہے زرداری صاحب کے ہوں یا پنجاب کے جوان ہوں ، اُن کو الزامات کی بوچھاڑ کرتے ہوئے سراسیمگی کے عالم میں بھاگ دوڑ کرتے دیکھنا کوئی معمولی تفریح نہیں ہے۔ ان کی پریشانی کی داد دینے کو دل چاہتا ہے کیونکہ اُن کو اس فکر نے ہلکان کیا ہوا ہے کہ آخر ڈاکٹر قادری کے پیچھے کون ہے اور کس نے ان کو کینیڈا کے آسمانوں سے اس دھرتی پر ناگہانی نزول کے لئے کمر بستہ کیا ہے․․․ کیا وہ نادیدہ ہاتھ ہمارے دفاعی اداروں کا ہے ،یا اس کارگزاری کے پیچھے سی آئی اے یا ایم I6، یا کوئی اور عالمی تنظیم ہے؟کتنی پریشانیوں نے بے چاروں کو گھیرا ہوا ہے!اب ہو سکتا ہے کہ مارچ کا انجام کار کچھ بھی نہ ہو ․․․ اگرچہ ہمیں پہلے سے ہی کوئی نتیجہ اخذ نہیں کر لینا چاہئے ․․․ ایک بات طے ہے کہ اس نے پاکستانی سیاست کے گدلے پانی میں کچھ ارتعاش پیدا کر دیا ہے اور اس خدمت پر پاکستانی قوم قادری صاحب کی مشکور ہے۔ جہاں تک جمہوریت کے با رے میں خدشات کا تعلق ہے تو خاطر جمع رکھیں، یہ لانگ مارچوں کی سہار رکھتی ہے، اس لئے اسے اس لانگ مارچ سے کوئی خطرہ نہیں ہو گا۔ ہاں اس نے پاکستان کی سیاسی قیادت کو جاگنے پر مجبور کر دیا ہے ، اس لئے اسے ایک خوش آئند پیش رفت قرار دیا جا سکتا ہے۔ پنجاب کے بلے باز ابھی عمران خان کے باؤنسروں ، جو اب گیند پرانا ہونے کے باعث غیر موثر ہو چکے ہیں، سے سنبھلے ہی تھے کہ گیند ایک ایسے کھلاڑی کے ہاتھ آگئی جس سے اس طرح کی گیند بازی کی توقع نہ تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ ”ذرا نم ہو تو․“۔ بہرحال پنجاب کے حکمران اسے ایک ذاتی حوالے سے بھی لے رہے ہیں کیونکہ پروفیسر صاحب کبھی لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں واقع اتفاق مسجد میں جمعہ پڑھایا کرتے تھے بعد کے واقعات کا سب کوعلم ہے۔ اب مسلم لیگ (ن) کے قائدین قادری صاحب کی آمد کو اپنے اُوپر حملہ تصور کر رہے ہیں ۔ اُن کا خیال ہے کہ طاہر القادری کو ا س لئے ”کسی “ نے بھیجا کہ پنجاب میں پی ایم ایل (ن) کی مقبولیت کے قلعے میں دراڑیں ڈالتے ہوئے اسے تیسری مرتبہ حکومت سازی سے روکا جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ترجمان بری طرح برافروختہ نظر آتے ہیں۔
اگر تھوڑی دیر کے لئے معقولیت کا دامن تھام لیا جائے تو یہ لانگ مارچ ، یا کوئی بھی، جمہوریت کیلئے خطرات پیدا نہیں کرتے۔ کیا امریکہ اور برطانیہ میں منتخب شدہ حکومتیں نہیں ہیں اور کیا ان کے خلاف لانگ مارچ نہیں ہوتے؟کیا عراق جنگ کے خلاف لاکھوں افراد نے ان ممالک میں لانگ مارچ نہیں کئے تھے ؟برطانوی وزیر اعظم مسٹر ٹونی بلیئر نے اس جنگ کے بارے میں اپنے عوام سے جھوٹ بولا۔ امریکی افسران نے دروغ گوئی سے کام لیا اور سابقہ امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مسٹر کولن پاؤل نے یواین سیکورٹی کونسل کو گمراہ کیا… اس پر کولن پاؤل نے بعد میں تاسف کا اظہار بھی کیا تھا۔ بے شک اُس وقت امریکی اور برطانوی میڈیا نے کوئی جان نہ دکھائی اور حکومتی موقف کو حرف بحرف تسلیم کر لیا لیکن اس جنگ کے خلاف کچھ آوازیں سنائی دیتی رہیں۔ اُس وقت کی امریکی اور برطانوی قیادت پر طنز او ر تنقید کے نشترچلائے گئے ، لاکھوں افراد نے سڑکوں پر مارچ کیا لیکن کسی نے اس طرز ِ عمل کو جمہوریت پر حملہ قرار نہیں دیا۔کسی نے نہیں کہا کہ ان افراد کا ”کالعدم کے جی بی“ سے تعلق ہے اور یہ جمہوریت کو پٹری سے اتارنا چاہتے ہیں۔ یہ بحث چلتی رہی اور مسٹر بش دوسری مدت کے لئے بھی صدر منتخب ہو گئے۔
اب قادری صاحب کیا کہتے ہیں؟ یہی کہ وہ نظام میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں… ملک کے خلاف بغاوت پر اکسانے کے علاوہ ہر کسی کو کوئی بھی بات کرنے کا حق ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا اس مجوزہ لانگ مارچ سے تبدیلی آئے گی یا نہیں؟میرا ذاتی خیال ہے کہ صرف عوام کے سڑکوں پر نکلنے سے ایسا نہیں ہوگا… جب تک دفاعی ادارے کوئی مداخلت نہیں کرتے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسلام آباد کے سب سے متحرک شعبے، سازشی تھیوریاں تیار کرنے والی صنعت ، کافی عرصے سے اس بات کا عندیہ دے رہے تھے کہ مقتدر طاقتیں کچھ ”مدت “ کے لئے ایک ایسی نگراں حکومت قائم کرنا چاہتی ہیں جو ان کی منشا کے مطابق ہو ، لیکن پاکستان کے داخلی اور علاقائی حالات اس قسم کے تجربے کے لئے موزوں نہیں ہیں۔ اگر، جیسا کہ ماضی کے تجربات گواہ ہیں، دفاعی ادارے فراغت میں ہوں تو پھر منہ کا ذائقہ بدلنے کے لئے کچھ کر سکتے ہیں لیکن اس وقت تو ہماری فوج مغربی سرحد پر نہایت مشکل جنگ میں مصروف ہے، چنانچہ اس کی طرف سے کسی مداخلت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بلاشبہ دفاعی ادارے چاہتے ہیں کہ ملک بدعنوان اور نااہل حکمرانوں کے چنگل سے آزاد ہو اور فوج کے نچلی سطح کے افسران بھی ملک کے لئے اتنے ہی اداس رہتے ہیں جتنے عام شہری ، اس لئے بعض اوقات ان کو غصہ بھی آجاتا ہوگاکہ وہ جنگ میں قربانیاں دے رہے ہیں لیکن سیاسی قیادت بڑے اطمینان سے حکومت کے مزے لوٹ رہی ہے۔ طالبان کے خلا ف جنگ میں کسی قومی سطح کے رہنما نے اگلے مورچوں پر لڑنے والے جوانوں کے پاس جا کر اظہار ِ یکجہتی نہیں کیا ہے(کسی مہذب ملک میں یہ غفلت قومی جرم کے زمرے میں آتی ہے)۔ اس طرح فوج میں کچھ اضطراب پایا جاتا ہوگا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں لینا چاہئے کہ وہ قادری صاحب کے مارچ کی آڑ میں اقتدار پر قابض ہونا چاہتی ہے۔
چنانچہ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ سیاسی پنڈت کس بات سے خائف ہیں؟ہو سکتا ہے کہ اُنہیں کسی ایسی بات کا علم ہو چکا ہو جس سے ہم عوام بے خبر ہیں۔ ایسی صورت میں ، جب کہ کوئی گمبھیر مسئلہ درپیش ہے تو اُنہیں قوم کو اعتماد میں لینا چاہئے ، یا پھر ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی نااہلیوں کی وجہ سے اتنے گھبراگئے ہوں کہ مقابلہ شروع ہونے سے پہلے ہی ڈر گئے ہیں۔ قادری صاحب کے خلاف اُنھوں نے سب سے پہلے جس ہتھیار کا استعمال کیا وہ طنز تھا۔ اُن کو شرمندہ کرنے کے لئے اُن کا ماضی یاد دلا گیا کہ کس طرح اُن کا طرز ِ عمل تضادات کا مجموعہ رہا ہے۔یہ بھی کہا گیا کہ جو بلبلے وہ چھوڑ رہے ہیں وہ حقائق کی ہوا کے ایک جھونکے سے پھٹ جائیں گے۔سچی بات یہ ہے کہ یہ حملہ اتنا شدید تھا کہ ایک لمحے کے لئے پروفیسر صاحب پچھلے قدموں پر جاتے ہوئے محسوس ہوئے ۔ تاہم جلد ہی اُنھوں نے اپنے آپ کو سنبھالا اور لانگ مارچ کی تیار ی شروع کر دی۔ اب وہ لوگ جو سمجھ بیٹھے ہیں اس قوم کا مستقبل صرف انہی کے ہاتھ میں ہے، بوکھلاہٹ کا شکار نظر آتے ہیں۔ ان کی بوکھلاہٹ کی اس امر سے غمازی ہوتی ہے کہ ابھی تک اُ ن کو پروفیسر صاحب کی آمد اور لانگ مارچ کا مقصد سمجھ میں نہیںآ یا، چنانچہ وہ رات دن سراپا احتجاج ہیں۔
میرا خیا ل ہے کہ اگر دل پسند مفروضات ، جن کے تحت سی آئی اے اور ایمI6 اور دیگر عالمی تنظیمیں یہاں سرگرم ِ عمل نظر آتی ہیں، کو نظر انداز کر دیا جائے توحقائق کا چہرہ اتنا پر کشش نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ پاکستانی عوام کو انہی بے کیف، کم نگاہ اور مفاد پرست روایتی سیاسی جماعتوں میں سے ہی کسی کا انتخاب کرنا پڑے ۔ جب عمران خان صاحب میدان میں آئے تو نوجوانوں نے ان کو اس باسی نظام میں ہوا کے ایک خوشگوار جھونکے کی طرح پایا لیکن یہ ابال جھاگ کی طرح بہت جلد بیٹھ گیا۔ اب پاکستانی سیاست میں ایک اورشخصیت نے دھماکہ خیز انداز میں قدم رکھا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اب قادری صاحب کی آمد بھی ہمارے ”سیاسی عمرانی “ پیرائے میں ڈھل جائے ، لیکن یہ بات تو ماننا پڑے گی کہ انھوں نے ایک ہلچل مچا دی ہے۔ حکیم الامت علامہ اقبال اپنی نظم ”چاند اور تارے“ میں کہتے ہیں…”پوشیدہ قرار میں اجل ہے “… اور ان کا خلاصہ ِ کلام یہی ہے کہ حیات ذوق ِ سفر کا ہی نام ہے۔ چنانچہ جو کوئی بھی قوم کو آمادہِ سفر کرتا ہے ، اُس کی حوصلہ شکنی نہیں کرنی چاہئے۔ پروفیسر صاحب کے 23 دسمبر کے جلسے میں مجھے جو بات سب سے اچھی لگی وہ یہ تھی جب شاہی قلعے کے نزدیک مسجد سے عصر کی اذان کی آواز آئی تو اُس وقت وہ خطاب کر رہے تھے۔ توقف کئے بغیر اُنھوں نے کہا…․” میں نماز ادا کرکے یہاں آیا ہوں، آپ بھی نماز ادا کرچکے ہوں گے، اس لئے یہ بات جاری رہے گی کیونکہ شریعت میں اس بات کی اجازت ہے…“میں اُس شخص ، جو عوام کے سامنے یہ بات کرنے کی جرأت کرسکتا ہے، کی قدر کئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ اگرچہ قادری صاحب ایک مولوی ہیں لیکن اُن کی دین کی تشریح ہمارے روایتی مولویوں سے قدرے مختلف ہے۔ میرا خیا ل ہے کہ ہمیں اس طرح کے مزید افراد کی ضرورت ہے۔ یہ بات نوٹ کی جاسکتی ہے کہ اُ ن پر سب سے سخت تنقید مولانا فضل الرحمن کی طرف سے کی گئی۔ اس کا مطلب ہے کہ مولانا کو قادری صاحب کی آمد اپنے سخت نظریات کیلئے خطرہ محسوس ہوئی۔ ان پر تنقید کرنے والوں میں سے زیادہ تر کا تعلق مشرف، یا اس سے پہلے کسی فوجی آمریت کے، دور سے ہے۔ چنانچہ ان پر جمہور یت دشمنی کا الزام لگانے والوں کو اپنے ماضی پر بھی نظر ڈالنی چاہئے۔ آج پاکستانی جمہوری نظام میں سرگرم کھلاڑیوں میں سے کس کا دامن صاف ہے؟اس بات میں دو آراء نہیں ہیں کہ انتخابات کو التوا کا شکار نہیں ہونا چاہئے اور نہ ہی اس نظام، چاہے پرانے روایتی حکمرانوں نے ہی دوبارہ اقتدار میں آجانا ہو، کو لپیٹنے کی اجاز ت نہیں دی جانی چاہئے، لیکن ایک مارچ کو جمہوریت کا دشمن کیوں قرار دیا جارہا ہے؟اگلے انتخابات میں کم و بیش انہی سیاست دانوں نے واپس آنا ہے، چنانچہ خاطر جمع رکھیں اور کچھ ہلا گلہ ہونے دیں۔
حرف ِ آخر : گزشتہ ایک دو روز سے موسم صاف ہو گیا ہے اور سردی کی شدت ختم ہو گئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بہار کی آمد آمد ہے․․․ کیا آسمانی طاقتیں بھی قادری صاحب کی معاونت پر آمادہ ہیں؟