بے اختیار بلدیاتی ادارے سیاسی خلا پیدا کررہے ہیں

April 04, 2019

منیر نیازی نے کہا تھا:

کوئی وارث ضرور ہوتا ہے

تخت خالی رہا نہیں کرتا

اب یہ دیکھنے والوں کی تربیت اور دانش پر ہے کہ وہ اصل تخت نشیں کو پہچانیں۔ ظاہر اور حقیقت میں بہت فرق ہوتا ہے۔ پاکستان کے سیاق و سباق میں تو مرئی اور غیر مرئی میں تمیز بہت ضروری ہے۔ جنرل ضیاء کی پالیسیوں اور طرزِ حکمرانی کی تائید یا تحسین تو ان کے صاحبزادے اعجاز الحق نے بھی کبھی نہیں کی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی حکمرانی کے اثرات اب بھی پاکستان کے شہر شہر پر ثبت ہیں۔ ماورائے عدالت قتل اور عدالتی قتل کی جو روایات انہوں نے قائم کیں وہ اب بھی چل رہی ہیں۔ جہاد کو پرائیویٹائز کرنے کی ابتدا بھی اسی دَور میں ہوئی۔ جو حسبِ توفیق مختلف تنظیموں اور افراد نے جاری رکھی۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ جنرل ضیاء کے انداز اور افکار اتنے موثر تھے یا ہمارے مزاج میں قبولیت ہی اس قسم کی پالیسیوں کی ہے ۔ مذہب کے حوالے سے جتنی تقسیم در تقسیم پاکستان میں ہوئی ہے شاید ہی کسی اور اسلامی ملک میں ہوئی ہو۔ ان رُجحانات کی مذمت تو روشن خیالوں کی طرف سے دیکھنے میں آتی ہے لیکن یہ تحقیق نہیں کی جاتی کہ بقول اقبال:

مذہب میں بہت تازہ پسند اس کی طبیعت

کرلے کہیں منزل تو گزرتا ہے بہت جلد

تحقیق کی بازی ہو تو شرکت نہیں کرتا

ہو کھیل مریدی کا تو ہرتا ہے بہت جلد

تحقیق سے گریز، تحقیقی اداروں میں بھی ہے۔ یونیورسٹیاں تحقیق کے نام پر بہت گرانٹس وصول کرتی ہیں۔ مگر وطن عزیز کو لاحق عارضوں کی تحقیق کرکے راہ نجات نہیں بتائی جاتی۔ میں بار بار لکھ رہا ہوں کہ یہ اللہ کا کرم ہے کہ شہر شہر یونیورسٹیاں قائم ہوگئی ہیں۔ دینی مدارس بھی بڑھ رہے ہیں مگر وہ الف جو مومن کو درکار ہوتا ہے اس کی تحصیل کہاں ہورہی ہے۔ بلھے شاہ یاد آتے ہیں:

علموں بس کریں او یار

اکّو الف تیرے درکار

یہ ’الف‘ کی گتھی سلجھانا ہی اصل تحقیق ہے۔

یونیورسٹیوں اور دوسری درسگاہوں کی تحقیق کا اوّلیں مرکز اپنا شہر ہونا چاہئے۔ اس کے ماضی میں جاکر دیکھیں کہ کیسے بسا۔ کیوں بسا۔ جب دور دراز جانے کی آسانیاں نہیں تھیں اس وقت یہاں کے لوگ کیسے گزارا کرتے تھے۔ بیمار ہوتے تھے تو علاج کیسے ہوتا تھا۔ مقامی طور پر روزگار کے مواقع کیا تھے۔ اناج کتنا پیدا ہوتا تھا۔ دوسرے شہروں سے روابط کے کیا راستے تھے۔ ماضی میں جو سہولتیں تھیں حال میں کتنی باقی ہیں، کتنی کم ہوگئیں۔ کیوں۔ نئی ایجادات نے شہر کی حالت کتنی بدلی ہے۔

بات ہر دَور میں تبدیلی کی ہوتی ہے ۔ تبدیلی افراد کے گیٹ اپ اور میک اپ سے نہیں آتی۔ ویسے تو تحقیق اس پر بھی ہونی چاہئے کہ مردوں اور عورتوں کی ظاہری شکل و صورت میں، لباس میں کتر بیونت کس وجہ سے ہو رہی ہے۔ حکم تو مردوں کے لئے ہے کہ ان کے پائجامے، شلواریں، پتلونیں ٹخنوں سے اوپر ہونا چاہئیں۔ لیکن اوپر ہورہے ہیں عورتوں کے پائنچے۔ تبدیلی شہر کے گیٹ اَپ اور میک اَپ سے آتی ہے۔ لیکن ہمارے سول حکمرانوں کے دَور میں شہر کھنڈر بن جاتے ہیں۔ کوئی شہر بھی حسنِ نظر کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔ ہم جیسے پیدل لوگوں کےلئے فٹ پاتھ چھوٹے شہروں میں تو شاید ہوں بڑے شہروں سے غائب ہورہے ہیں۔ کوئی سننے والا نہیں ہے۔ جمہوری اداروں کی بنیاد رکھنے والوں نے صرف صوبائی اور قومی اسمبلیاں نہیںشہری حکومتیں بھی قائم کی تھیں۔مغرب جہاں کی جمہوریت کی ہم نقالی کرتے ہیں، جن پارلیمنٹوں کی تقریروں جیسی تقریریں کرنے کی مہارت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہاں کسی نہ کسی شکل میں مقامی حکومتیں قائم ہیں۔ اور بہت زیادہ فعال، بہت زیادہ شراکتی۔ جو دیکھتی رہتی ہیں کہ شہریوں کو سانس لینے، چلنے، گھومنے، کھانے پینے، گھر سے دفتر، کارخانے،واپس گھر جانے کی سہولتیں ہیں یا نہیں۔یہ مقامی حکومتوں کی ذمہ داری ہے ۔ وہاں پانی، ٹرانسپورٹ، کھانے کی چیزیں مافیائوں کے سپرد نہیں کی جاتیں۔

جمہوری حکومت کا مقامی یونٹ کونسلر ہے۔ جسے شہری منتخب کرتے ہیں۔ وہ اپنے علاقے میں گھومتا رہتا ہے دیکھتا ہے کہ کہاں مشکلات ہیں۔ وہاں شہری بھی اتنے ذمہ داراور بلدیاتی شعور رکھتے ہیں کہ وہ اپنے مسائل سے کس کو آگاہ کریں۔ ہمارے ہاں بھی ایسا نظام قائم تھا مگر ہمارے جمہوری حکمرانوں نے اسے رفتہ رفتہ بے اثر کردیا ہے۔ اب جمہوریت آپ کے گھر کی دہلیز پر نہیں بلکہ وزیر اعلیٰ ہائوس کے اندر کئی کئی پردوں میں چھپی رہتی ہے۔ یا اسمبلیوں میں اسپیکر اور اپوزیشن کے درمیان فٹ بال بنی رہتی ہے۔

اس وقت بھی سب دیکھ رہے ہیں کہ فعال اور با اختیار بلدیاتی ادارے وفاقی حکومت کی ترجیح ہیں اور نہ ہی کسی صوبائی حکومت کی ۔ نتیجہ یہ کہ ملک بھر کے عوام چاہے وہ وفاقی دارُالحکومت میں رہتے ہیں یا صوبائی دارُالحکومتوں میں۔ بڑے شہروں میں یا چھوٹے شہروںمیں۔ قصبوں میں یا دیہات میں، سب پریشان ہیں۔ شہر غیر محفوظ ہیں۔ علاج معالجے کی سہولتیں نہیں ہیں۔ آنے جانے کے لئے آرام دہ ٹرانسپورٹ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا نائب انسان تکلیف میں ہے۔ اس کے لئے سیاستدان تو چھوڑیئے۔ علماء کوئی آواز بلند کرتے ہیں نہ میڈیا۔

اکثر گلہ ہوتا ہے کہ فوجی حکمران ایوب خان ہوں، جنرل ضیاء، یا پرویز مشرف، ملک کو غیر سیاسی کرنے کے لئےبلدیاتی اداروں کو متحرک کرتے ہیں اس میں کیابرائی ہے۔ سول دَور میں سب سے بڑی خامی یہی ہوتی ہے بلکہ ایک خلا ہوتا ہے۔ جس سے عوام کو مشکلات پیش آتی ہیں۔ فوجی حکمراںاس خلا کو پُر کرکے عوام کو خوش کردیتے ہیں۔ سول حکمرانوں کو بلدیاتی ادارے متحرک کرنے سے کون روکتا ہے۔ وہ جمہوریت کی اس پہلی سیڑھی کے زینے کیوں غصب کرتے ہیں۔ بلدیاتی ادارے طاقت ور ہوں گے تو صوبائی اور وفاقی ادارے بھی مضبوط ہوں گے۔

تخت خالی رہا نہیں کرتا۔ سیاسی حکمراں یہ جو مصنوعی خلا پیدا کرتے ہیں یہ خود ان کی نشوونما روک دیتا ہے۔ اب اگر موجودہ وزیروں کی نا تجربہ کاری کی باتیں ہورہی ہیں اس لئے کہ وہ جو وزیر یونین کونسل، ڈسٹرکٹ کونسل، میونسپل کارپوریشن سے منتخب ہوکر آتے ہیں انہیں انتظامیہ کا بنیادی تجربہ ہوجاتا ہے۔ اگر یہ ادارے بے اختیار ہوں گے ۔ سارے مالی اختیارات صوبائی حکومتیں لے لیں گی تو شہر مفلوک الحال ہوں گے۔ ٹرانسپورٹ، پینے کا صاف پانی، گندگی کا خاتمہ سب محکمے متاثر رہیں گے۔ شہری بے چین اور ناراض رہیں گے۔

سیاسی حکمراںحکومتوں میں بھی بنیادی شعبے مکمل نہیں کرتے۔ اپنی پارٹیوں میں بھی یہ خلا رکھتے ہیں ۔ شہری کمیٹیاں نہیں ہیں۔ صوبائی مجالسِ عاملہ نہیں ہیں۔ مرکزی مجالس ِعاملہ نہیں ہیں۔ بڑے بڑے بحران آتے ہیں۔ کسی پارٹی کی مرکزی کمیٹی غور کرنے کے لئے نہیں بیٹھتی۔ صرف بیانات ہیں،ٹاک شوز ہیں اور اب سوشل میڈیا استعمال ہورہا ہے۔ لیکن اسٹرکچر( ڈھانچہ) نہیں ہے۔ صرف شخصیتیں ہیں۔ اسی طرح تو سیاسی خلا پیدا ہوتا ہے۔

خانۂ خالی را دیو می گیرد

دیو کا قرب حاصل کرنے کے لئےانسان بے چین نظر آتے ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)