اصلاح معاشرہ اور مذہبی جماعتیں

January 14, 2013

متحدہ مجلس عمل کے احیاء کی باتیں افتادہ طبع کی خاطر گاہے بگاہے ہوتی رہتی ہیں۔ گزشتہ روز بھی اس سلسلے میں بعض خبریں اخبارات کی زینت بنیں لیکن چونکہ ہنوز اندرونی قوتوں کے اشارے واضح نہیں ہیں لہٰذا ان خبروں کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ مذہبی جماعتیں متحد ہو کر سیاسی اکھاڑے میں تب ہی اترتی ہیں جب ریفری اپنا ہو یا پھر کوئی کسی کا بنا بنایا کھیل بگاڑنے کا آرزو مند ہو یہ جماعتیں ہمہ وقت من پسند واقعات اور سازگار حالات کی منتظر رہتی ہیں اور پھر اپنے لئے اور غیروں کی خاطر، عوام کو گمراہ کرنے کے اس کھیل کا پلک جھپکتے ہی اہتمام کر لیتی ہیں، جس میں یہ اپنی مثال آپ ہیں۔
یہ زیادہ دور کی بات نہیں، جب امریکہ کو اس خطے میں ایک بار پھر آمریت کی ضرورت پڑی تو دیکھتے ہی دیکھتے مسلم لیگ (ن) کی دوتہائی اکثریت کی حامل حکومت زمیں بوس ہو کر رہ گئی اور پہلے مرحلے میں ان جماعتوں نے نواز شریف کی رخصتی پر مٹھائیاں تقسیم کر کے آمر جنرل مشرف کو سکون سے زمام اقتدار سنبھالنے میں بلاواسطہ اخلاقی مدد فراہم کی۔ دوسرے مرحلے میں بلدیاتی انتخابات میں بھرپور حصہ لے کر ایک آمر کے نظام پر صاد کیا اور تیسرے مرحلے میں رسوائے زمانہ17 ویں ترمیم کے ذریعے ان کے اقتدار کو آئینی جواز فراہم کر کے ان کی برہنہ حمایت سے بھی گریز نہیں کیا۔ ایک آمر کے اقتدار کو مستحکم کرنے اور اپنے تشنہ ارمانوں کی تکمیل کی خاطر اس قسم کی جماعتوں نے نائن الیون کے اس واقعے کا سہارا لیا، جس کا اہتمام عالمی استعمار نے عیارانہ طور پر کر رکھا تھا۔ ماضی کی طرح سادہ لوح عوام کو اپنے اور اپنے دیرینہ حلیفوں کی بھینٹ چڑھانے کیلئے متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کا قیام عمل میں لایا گیا اور یہ تاثر دیا گیا کہ 6 عشروں سے عوام کی دلی خواہش و ملی آرزو تھی کہ مذہبی جماعتیں ایک ہو جائیں۔ اب چونکہ وہ ایک ہو گئی ہیں لہٰذا ان کو ووٹ دینا فرض عین ہے۔ انتخابی نشان ”کتاب“ کو مقدس کتاب قرار دیا گیا اور پھر وہی ہوا جو تاریخ میں بار بار ہوتا رہاہے کہ عوام اصل و نقل کے امتیاز کو بالائے طاق رکھ کر اسلام کے مقدس نام پر مذہبی جماعتوں کی حمایت میں برسر پیکار ہو گئے اور ان کی آنکھیں بھی حسب معمول اس وقت کھلیں جب کھیل کے مقاصد حاصل کئے جا چکے تھے۔مجلس عمل نے اپنی مدت پوری کی لیکن نہ تو انتخابی وعدے کے مطابق کسی وزیر اعلیٰ یا گورنر ہاؤس کو یونیورسٹی یا اسپتال میں تبدیل کیا اور نہ ہی عوام کو کوئی سہولت فراہم کی۔ اسلامی نظام کا نفاذ یا امریکہ کو افغانستان سے مار بھگانا تو دور کی بات ہے، مجلس عمل تو اقتدار کے خاتمے کے ساتھ ہی سوکھے پتوں کی طرح بکھر گئی لیکن سوال یہ ہے کہ اگر مجلس عمل کا قیام مسلمانوں، اسلام اور عالم اسلام کی ضرورت تھی، تو کیا وہ ضرورت پوری ہو گئی تھی !!؟ یا یہ وقت کی ضرورت تھی، جو وقت ختم ہونے پر ختم ہو گئی۔ جاننے والے اس وقت بھی جانتے تھے کہ بریلوی و اہل تشیع مسلک کی حامل جماعتیں تو سچے جذبے سے اس اتحاد کا حصہ بنی ہیں لیکن اصل کھیل تو ان بااثر جماعتوں کا ہے جو حسب ضرورت دیگر مذہبی جماعتوں کو ملا کر اکٹھی ہو جاتی ہیں اور پھر ٹاسک پورا ہونے پر کسی اتحادی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے میں ذرّہ برابر بھی دیر نہیں لگاتیں۔ یہی اس اتحاد کے ساتھ ہوا کہ اتحاد کو بچانے کی بریلوی اور اہل تشیع علمائے کرام کی اخلاص سے بھرپور سعی بھی لاحاصل ثابت ہوئی۔یہاں یہ امرخالی از دلچسپی نہ ہو گا کہ مجلس عمل نے نام تو اسلام کا لیا لیکن اپنے خود ساختہ اسلامی تصور کو صرف پختون علاقوں تک ہی محدود رکھا۔ اسے ملک کے دیگر علاقوں تک پھیلانے کی دانستہ کوشش نہیں کی گئی، شاید وہ باقی ملک کے مسلمانوں میں وہ جذبہ نہیں پاتے تھے جو انہیں پختونوں میں نظر آتا ہے !! یا پھر ملک کے مسلمان ان کے درپردہ عزائم سے آگاہ ہونے کے باعث ان کے پُرفریب جال سے دور رہے اور سادہ لوح پختون ماضی کی طرح پھر ان کی زلف کے اسیر ہو گئے!!اکثر مذہبی جماعتوں کا المیہ ہے کہ وہ اصل کام یعنی اصلاح معاشرہ پر حصول اقتدار کو ترجیح دینے لگی ہیں۔ جو جماعتیں اسلامی انقلاب کا نعرہ لگاتی ہیں اور پوری دنیا پر اسلام کا پرچم لہرانے کا واویلا مچاتی رہتی ہیں انہیں یقیناً اس سچ کا ادراک ہو گا کہ اسلامی انقلاب کیلئے ایک ایسی صالح فورس کی ضرورت ہوتی ہے جو عملی نمونہ بن کر معاشرے کو اسلامی سانچے میں لانے کا فریضہ سر انجام دے۔ مولانا مودودی نے اسی لئے سب سے زیادہ زور اصلاح معاشرے پر دیا اور اس کیلئے بے پناہ تحریری خدمات سرانجام دیں۔ حقیقت بھی یہ ہے کہ جب ہم اپنے پانچ چھ فٹ کے بدن پر اسلامی نظام نافذ نہیں کر سکتے تو ہم پوری دنیا تو کیا کسی محلے میں بھی اسلامی نظام نافذ کرنے کے اہل ثابت نہیں ہو سکتے۔ ہمارے ہاں آئے روز مدرسوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن برائیاں پھر بھی کم نہیں ہو رہی ہیں بلکہ ان میں بھی اضافہ ہو رہا ہے یا تو مدرسے اصلاح معاشرے کا ذریعہ ثابت نہیں ہو رہے یا پھر عوام ان کا اثر نہیں لیتے۔ المیہ یہ ہے کہ اخلاص کی کمی کے ساتھ ساتھ اکثر مدرسوں میں دنیاوی تعلیم کو زہر ہلاہل قرار دیا جاتا ہے جبکہ جدید تعلیم کے شیدائی دین سے بیگانے ہوتے جا رہے ہیں یعنی وہ اعتدال و توازن جو اسلام کا حسن ہے، ہماری نظروں سے اوجھل ہے۔ نتیجتاً ہم دو مخالف سمتوں پر گامزن انتہاؤں کی زد میں ہیں حالانکہ اسلام نے دین و دنیا دونوں کی تعلیم کا درس دیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے مذہبی پیشوا کچھ اس جانب بھی توجہ دیں !! جو مدرسے جدید تعلیم کی طرف پہلے ہی پیشرفت کئے ہوئے ہیں وہ یقیناً اخلاص سے اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ہم امریکہ یا یہود و ہنود کا اس صورت مقابلہ کر سکتے ہیں جب ہم جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہوں اور یہ کہ سورج و چاند کے مسخر کئے جانے کیلئے بھی دین کیساتھ ساتھ جدید تعلیم کی ضرورت ہے۔ بلامبالغہ کوئی بھی مسلمان حقیقی اسلامی نظام کے نفاذ کا مخالف نہیں ہو سکتا لیکن اگر اس سلسلے میں کوئی نتیجہ خیز تحریک سامنے نہیں آسکی ہے تو اس کا سبب وہ سیاسی مولوی ہیں جو نظام یا معاشرے کو بدلنے کی بجائے اپنی طبقاتی حیثیت کو تبدیل کرنے کیلئے سرگرداں ہیں۔