برطانیہ میں مذہبی فوبیاکی لہر

April 16, 2019

گل و خار … سیمسن جاوید
ولڈٹریڈسینٹر کے المناک سانحہ کے بعد مذہبی انتہا پسندی نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور پھر شام و عراق میں سلطنتِ خلافت کی خواہاں داعش کے کنٹرول سنبھالنے کے خلاف نیٹو کی مداخلت سے یورپ ،امریکہ اور برطانیہ سے جہادی اور جہادی دلہنوں کی عراق اور شام کی طرف روانگی شروع ہوگئی۔ حکومت ِبرطانیہ نے جہادیوں کو روکنے کے انتظامات بھی کئے۔یورپ ،امریکہ کے علاوہ لندن میں بھی تخریب کاری کے واقعات پیش آئے۔بین المذاہب میں کشیدگی پیدا ہونے کے خدشے کے بادجود برطانیہ میں اسلامک فوبیا کی سرگرمیاں جاری رہیں ۔ مسلمان آبادی کے علاقہ میںشرعی کورٹس نما دفاتر کا کام کرنا اوراس کے علاوہ نفاذ کے مطالبات اور کچھ مذہبی بنیاد پرستوں کی جانب سے مذہب کو برتر ثابت کی کوشش بھی سامنے آئی۔کئی مسجدوں میں در پردہ مذہبی انتہا پسندی کی تربیت کی شنید بھی سنائی دی ۔لہٰذا حکومت نے مسجدوں کی مانیٹرنگ کا سسٹم شروع کردیا۔ ہر مذہب میں جہاں امن پسند ہوتے ہیں وہاںانتہا پسند بھی ہوتے ہیں۔بنگلہ دیشںسے تعلق رکھنے والے مسلم مذہبی انتہا پسندی میں زیادہ پیش پیش تھے مذہبی انتہا پسندی کے واقعات بھی سامنے آنے لگے۔ بین المذہب میں ہم آہنگی پر زور دیا گیا مگر کشیدگی بدستوربر قرار رہی۔ مشکلات کو بھانپتے ہوئے اسلامک فوبیا کے خاتمے کی باز گشت سنائی دیتی رہی۔سعیدہ بیرونس وارثی جو کسی حد تک لبرل بھی ہیںانہیں انتخابی مہم کے دوران اسلامک فوبیا کا کئی بار سامنا کرنا پڑا ۔ گویاحکومت ِ برطانیہ نے نہ صرف اسلامک فوبیا کو روکنے کے مناسب انتظامات کئے بلکہ ری ایکشن کے طور پرسامنے آنے والی First Britishمذہبی انتہا پسندی کی سرگرمیوں کو مکمل طور پر ختم کرنے میں کامیاب ہو گئی مگر اسلامک فوبیا کی سرگرمیاں جاری رہیں ۔ہر روزکسی نہ کسی واقعہ کی خبر آنے لگی۔ برطانیہ میں مقیم اکثر مولانا بنیاد پرستی سے باز نہ آئے ۔اْس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امیگریشن کے قوانین سخت سے سخت ترہوتے گئے۔حالات وواقعات کی نزاکت پر اہل دانش کے بیانات آتے رہتے ہیں کہ اسلامک فوبیا کو ختم کیا جائے۔ شام و عراق میںداعش کے مکمل خاتمے کے بعد جہادی بیوی شمیمہ بیگم نے جو پناہ گزین کیمپ میں تھی ، شام سے واپس برطانیہ آنے کی درخواست کی، جو نامنظور ہو گئی۔اس کی دوسری شادی ڈچ آدمی سے ہوئی تھی جو اْسے ہالینڈ لے جانا چاہتا تھامگر ہالینڈ نے اْسے آنے کی اجازت نہ دی۔برطانیہ میں شمیمہ بیگم کے والدین کی برطانوی حکومت کو اپیل کے بعد برطانوی حکومت کے ہوم ڈیپارٹمنٹ نے شمیمہ بیگم کی برطانوی شہریت یہ کہہ کرمنسوخ کردی کہ چونکہ شمیمہ بیگم کے والدین کا تعلق بنگلہ دیش سے ہے۔ان کی شہریت بھی بنگلہ دیشی ہے تو شمیمہ بیگم کو بنگلہ دیش جانا چاہئےمگر بنگلہ دیش نے بھی شمیمہ بیگم کو اپنے ملک آنے کی اجازت نہ دی۔ اس گرما گرم خبر اوربحث پر عام گوروں میں بھی غصہ دیکھنے میں آیا۔ برمنگھم اور برطانیہ کے دوسرے شہروں میںمسجدوں اور مدرسوں پر حملوں کی نئی لہر دوڈ گئی ۔ نیوکاسل میں ہونے والے اسلالک سنٹر پر حملے کے واقعہ میں 16 سے 18 سال کے نوجوان لڑکے اور دو لڑکیاں شامل تھیں۔پولیس نے فوری کارروائی کر کے ان نوجوانوں کوگرفتار کر لیا۔ ان کے علاوہ مسلمانوں کے خلاف مواد بھی تقسیم کیا گیاکہ3 اپریل کو ــــپنش اے مسلم ڈے‘ یعنی مسلمانوں کو سزا دینے کا دن، کے طور پر منانے کا کہا گیا ۔ وہ کہتے ہیںکہ ہم اپنے ملک میں مسلمانوں کو زیادہ نہیںدیکھنا چاہتے۔ جس طرح کے واقعات عراق و شام کی جنگ کے دوران برقع پوش خواتین پر گورے مرد و خواتین کی طرف سے آوازیں کسنے کے واقعات کاسلسلہ جاری ہوگیاتھا۔ اسی طرح اب نوجوان گورے پاکی کی آوازیں کسنے لگے ہیں جس سے مسلمان خوفزدہ ہیں۔ اس قسم کے واقعات کو روکنے کے لئے جہاں بین المذاہب میں ہم آہنگی کی سر گرمیوں کو تیز کرنا ہوگا وہاں مذہبی فوبیا کی حوصلہ شکنی بھی کرنا ہوگی۔اور یہ احساس بھی پیدا کرنا ہو گاکہ جس ملک میں بھی رہا جائے اْس ملک کے قانون و قوائدکا پاس رکھنا اور اس کے کلچروتہذیب کاخیال رکھناضروری ہوتاہے۔ غیروں کے ملک میںرہتے ہوئے اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد بنانا ان کو اس بات پر اکسانے کیلئے کافی ہے کہ وہ آپ کے بارے میں غلط سوچنے پر مجبور ہوجائیں۔ اسلامک فوبیا کی وجہ سے پْر امن مسلمان مشکلات کا شکارہیں۔پچھلے سال یہ خبر بھی گردش کر رہی تھی کہ حکومت مسلم آبادی والے شہروں میں مانیٹرنگ کرنے کا ارادہ رکھتی ہےجس کی وجہ سے کئی مہذب لوگوں نے دوسرے پرامن شہر وںکا رخ کرنے میں عافیت سمجھی۔ ظاہر ہے کہ مانیٹرنگ سے مسائل و مشکلات پیدا ہوںگے۔ برطانیہ میںہرمذہب و عقیدے کے لوگوں کو مکمل آزادی حاصل ہے۔ایسا نہ ہو کہ اسلامک فوبیا کی وجہ سے یہاں بھی امریکہ ،ہالینڈ یا اورآسٹریلیا جیسے مشکل حالات پیدا ہوجائیں۔ عقل کا تقاضہ یہی ہے کہ نفرت کو مزید بڑھنے سے روکا جائے اوربرطانیہ جیسی جمہوریت میں ،جہاں نسل ،رنگ اور مذہب کا امیتاز نہیں برتا جاتا ، اپنے رویوں میں تبدیلی لائی جائے۔