وفاقی کابینہ میں ردّوبدل

April 20, 2019

نظامِ حکومت پارلیمانی ہو یا صدارتی، کابینہ اس کا اہم ترین حصہ ہوتی ہے کہ اس میں موجود وزرا ہی درحقیقت پورے ملک کا نظام چلاتے ہیں۔دوسرے معنوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہی حکومت کامیابی سے ملکی امور چلا کر ملک کو مسائل سے نکال اور ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کر سکتی ہے جس کی کابینہ باصلاحیت افراد پر مشتمل ہو اور اسے اپنی پالیسیوں پر عملدرآمد کا بھی مناسب وقت ملے۔یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی حکومت انتہائی غوروخوض اور عرق ریزی کے بعد اپنے بہترین لوگوں کو ان کی لیاقت کی مناسبت سے وزارتوں کے قلمدان دیا کرتی ہے تاکہ وہ حکومتی امور کو بطریق احسن سرانجام دے سکیں اور لازمی امر ہے کہ اس میں وقت بھی درکار ہوتا ہے۔جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے بلاشبہ یہ اس وقت بدترین اقتصادی بحران کا شکار ہے جس کے بارے میں حکومتی موقف بار ہا سامنے آیا کہ اس کی وجہ سابق حکومتوں کے لئے گئے قرضے ہیں جن کی ادائیگی کے لئے حکومت کو قرض لینا پڑ رہا ہے۔تاہم دوست ممالک سے مالی اعانت کے باوجود حالات دگرگوں ہوتے چلے گئے، ڈالر کی قدر ہی کیا پیٹرولیم مصنوعات بلکہ بنیادی اشیائے ضروریہ تک گراں ہو گئیں تو اس حوالے سے نہ صرف حکومت تنقید کی زد میں آئی بلکہ یہ بھی کہا گیا کہ معیشت کو مستحکم کرنا وزیر خزانہ اسد عمر کے بس کی بات نہیں۔دوسری جانب یہ موقف بھی غلط نہیں کہ محض آٹھ یا نو ماہ کا عرصہ کسی حکومت کی کارکردگی جانچنے کیلئے کافی نہیں لیکن اس مختصر عرصے میں وزیر خزانہ اسد عمر مستعفی ہو گئے یا ان سے استعفیٰ لے لیا گیااور 6وفاقی وزرا کے قلمدان تبدیل کر دیئے گئے۔ان تبدیلیوں کے نہ صرف ملک و قوم بلکہ بین الاقوامی سطح پر اثرات مرتب ہونا بعید از قیاس نہیں۔ حکومت کے اس اقدام کو بھی ناپختگی پر محمول کیا جا سکتا ہے۔ایک رائے یہ ہے کہ کابینہ کو مزید وقت ملنا چاہئے تھا خاص طور پر وزیر خزانہ کا اس وقت استعفیٰ دینا خود حکومت کیلئے مشکلات کا سبب بن سکتا ہے کہ وہ آئی ایم ایف سے ڈیل کر رہے تھے اور وہ ڈیل ابھی مکمل نہیں ہوئی، علاوہ ازیں بجٹ سر پر ہے تو کیاکوئی نیا وزیر خزانہ بجٹ جیسی اہم ذمہ داری نبھا سکے گا۔حالات تو یہی بتا رہے ہیں کہ اسد عمر کی یہ بات سچ ثابت ہو گی کہ آئندہ بجٹ آئی ایم ایف کا ہو گا اور اگر ایسا ہوا تو مہنگائی سے نڈھال عوام پر یہ بجٹ کسی بلائےبےدرماں سے کم نہ ہو گا، حکومت کیلئے مشکلات کسی سیلِ رواں کی مانند ہو جائیں گی جن کے آگے بند باندھنا دشوار ہوگا۔مہنگائی کی بے لگامی شاید ساری حدیں پھلانگ جائے اور پھر اپوزیشن بھی یہ باور کراتے ہوئے کہ حکومت کی معاشی سمیت دیگر پالیسیاں کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکیں، میدان میں کود پڑے اور سیاسی بحران شروع ہو جائے۔چنانچہ اس مشکل وقت میں مذکورہ فیصلوں کو دانشور حلقے اگرچہ درست قرار نہیں دے رہے،تاہم حکومت نے اگر کابینہ میں ردوبدل کیا ہے تو یقیناً یہ تمام امور بھی اس کے پیش نظر ہوں گے ایسا تو ممکن نہیں کہ متبادل حکمت عملی کے بغیر ہی اتنے بڑے اور اہم فیصلے کر لئے گئے ہوں۔یہ بات بھی موضوع بحث بنی ہوئی ہے کہ جن وزراء کو کابینہ میں اہم وزارتیں دی گئی ہیں وہ دوسری سیاسی جماعتوں کی حکومتوں میں بھی اہم عہدوں پر رہ چکے ہیں۔جن پرملکی معیشت تباہ کرنے کے الزامات ہیں تو کیا پی ٹی آئی میں ان کے علاوہ ایسے افراد موجود نہیں جو یہ ذمہ داریاں نبھانے کے اہل ہوں ؟حکومتی اقدامات پر بحث تو ممکن ہے تاہم یہ وزیر اعظم کی صوابدید ہے کہ جسے مناسب سمجھیںکابینہ سے الگ کر دیں اور جسے موزو ں سمجھیں، شامل کر لیں۔اگر حکومت ملک و قوم کے مفاد میں یہ تبدیلیاں لائی ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن اب حکومت کی ذمہ داریاں مزید بڑھ گئی ہیں کہ وہ ان تبدیلیوں کو صحیح ثابت کر کے دکھائے، ملک کو ہمہ قسم کے مسائل سے باہر نکالے، سیاسی، اقتصادی، معاشی اور سماجی استحکام کے حصول کیلئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کرے،عوامی مسائل حل کرے اور انہیں آسانیاں بہم پہنچائے۔ حالات اگرچہ مشکل ہیں تاہم اگر قول وفعل کی بنیاد نیک نیتی ہو تو کسی بھی منزل تک پہنچنا ناممکن نہیں۔توقع ہے کہ وزیر اعظم کی نئی ٹیم قوم کو مشکلات سے نکالنے میں کامیاب ہو جائیگی۔