ممتاکہاں نہ پہنچی۔۔۔۔۔۔؟

April 26, 2019

فکرفردا…راجہ اکبردادخان
مولائے قدوس نے یہ کہہ کر کہ جنت ماںکے قدموںمیںہے اور لوک کہاوت کہ ’’ماواں ٹھنڈیاں چھاواں‘‘ میںماں کا مقام دونوں حوالوںسے طے کردیا گیا ہے۔ ماں اگر بستر تر ہوجائے تو بچے کو سوکھی جگہ لٹا کر اور خود گیلی جگہ پر باآرام رات گزار لیتی ہے۔ اولاد کیلئے ماں کی ایسی لازوال محبت جس میں دعائوں اور نیک خواہشات کے سمندر سمٹے ملتے ہیں قدرت کا ایک نایاب تحفہ ہے جس سے مزید ظاہر ہوتا ہے کہ خداوند کریم اپنے بندوں کے درمیان کس طرح کے بندھن باندھ دیتا ہے تاکہ وہ آپس میں جڑے رہیں اور معاشرہ اخوت اور شرافت کے ماحول میں رواں دواں رہے۔ آج میں 17 مئی کو The Times Londonمیں شائع ہوئی ایک خبر جس میں ایک آسٹریلین خاتون اپنے نواسے نواسیوں کی کو تلاش کرتے ہوئے بالآخر ان سے شام کے ایک کیمپ میں جا ملتی ہے، میں اسے ماںکی محبت کی ایک عظیم داستان سمجھتے ہوئے قارئین کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ ISISکے یتیم بچوںسے ان کی آسٹریلین نانی کی شام میں ملاقات۔۔ ایک آسٹریلین نانی کی اپنے یتیم نواسے نواسیوں کی پانچ سال کی تلاش شام کے ایک ریفیوجی کیمپ میں ختم ہوتی ہے جہاں اس کی ان سے ملاقات ہوتی ہے یہاںاس کی نواسی کے تین بچوں سے بھی ملاقات ہوتی ہے اور یہ خاندان اسلامک سٹیٹ کے ایک مضبوط مرکز سے بھاگ کر یہاںپناہ لئے ہوئے ہے۔ کیرن نیٹلٹن کے پانچ نواسے نواسیوں کی عمریں جب ان کی ماں انہیں سڈنی (آسٹریلیا) میں اپنے گھر سے شام لے گئیںتین اور بارہ سال کے درمیان تھیں جہاں ان بچوں کا باپ خالد شاروف شامی فوجوںکے خلاف لڑ رہا تھا اور جب ایک دفعہ اس نے اپنے ایک لڑکے کو ایک سیرین فوجی کا کٹا ہوا سر اپنے ہاتھ میں لے کر ٹی وی پر دکھایا اس زمانے میں وہ آسٹریلیا کا بدنام ترین دہشت گرد جانا گیا ہے اور یہ تصویر آن لائن کردی اس جوڑے کے تین بچے ہی جنگ میںبچ پائے ہیں۔ زینب جو اب سترہ برس کی ہے اور دو بچوں کی ماں ہے جبکہ تیسرا بچہ ابھی اس کے پیٹ میںہے اس کی چھوٹی بہن ہُدا جو سولہ سال کی ہے اور حمزہ جو آٹھ سال کا ہے ان کی والدہ 2015 ءمیںاپنڈکس (Apendex)کی بیماری کی وجہ سے فوت ہوگئیں اور ان بچوںکا والد ایک ہوائی حملہ میں 2017میں فوت ہوگیا جہاںاسی حملہ کے دوران ان کے بھائی عبداللہ اور زرقاری بالترتیب 12اور 11سال کی عمر میں فوت ہوگئے کیرن نیٹلٹن اس مہینہ شمالی شام میں آباد ریفیوجی کیمپ ’’الہال‘‘ میں اپنے نواسیوں اور نواسہ سے جا ملتی ہے جہاں 72,000 کے قریب افراد پناہ لئے ہوئے ہیں اس ملاقات کو آسٹریلین براڈ کاسٹنگ کارپوریشن نے ریکارڈ بھی کیا ہے (جو یقیناً ایک بڑا واقعہ ہوا ہوگا)۔ کیرن نیٹلٹن کی بچوں کی تلاش کی یہ تیسری کوشش تھی جو مس نیٹلٹن نے کی اور کامیاب ہوئیں۔ وہ ایک بار 2016میںترکی گئیں تاکہ وہ بچوں سے مل سکیں اور دوبارہ 2018میںآئیں، کے زیر انتظام علاقہ میںگئیں تاکہ بچوں کو تلاش کرسکیں (مگر دونوںناکام رہیں) زینب جس کی شادی ایک آئیسس جنگجو سے کردی گئی تھی اس کی عائشہ اور فاطمہ دو بیٹیاں ہیںاور کہتی ہے کہ وہ بہت پہلے ISISماحول سے بھاگ جانا چاہتی تھی مگر ’’جو چھوڑ جاتے ہیں ان کے متعلق بعد میںکچھ پتہ نہیںچلتا‘‘ اس خوف کی وجہ سے میں ایسا نہیں کرسکی ’’ہم خود اپنی مرضی سے یہاں نہیںآئے بلکہ ہمیںہمارے والدین یہاںلائے اب ہمارے والدین مرچکے ہیں مگر ہم زندہ رہنا چاہتے ہیں میںخود اور میرے بچے ایک نارمل زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔‘‘ زینب کی بہن ہُدا نے بتایا کہ اسے کچھ علم نہیں تھا کہ ہم کہاں جارہے ہیں۔ میں نے جب لوگوں کو عربی بولتے سنا تو میری ماں نے مجھے بتایا کہ ہم شام میں ہیں تو اس وقت میں نے رونا شروع کردیا، کیمپ سے فارغ ہونے کے بعد آسٹریلین اور کُردشی فورسز سے مشاورت کے بعد مس نیٹلٹن نے بچوں کو بتلایا کہ وہ انہیں واپس (آسٹریلیا) لانے کی کوشش کریں گی۔ آسٹریلین براڈ کاسٹنگ کے مطابق یہ خاندان نہ تو خوفناک لوگ ہیں اور نہ ہی آسٹریلیا کو ان سے کوئی خطرہ ہے۔ اس وقت تک آسٹریلوی وزیراعظم ISIS جہادیوں کے بچوں کو واپس لانے کیلئے تیار نہ تھے۔ لیکن اب ان کے لہجے میںلچک ابھرتی نظر آتی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ آسٹریلیا خاموشی سے پس پردہ رہ کر کام کررہا ہے۔ اور ان بچوں کو واپس لانے کیلئے کئی مزید مشکلات سے نمٹنا ہوگا۔ آسٹریلین حکومت کے مطابق ایک سو کے قریب لوگ جو ISISکی مدد کیلئے شام گئے تھے ابھی تک عراق اور شام میں ہی موجود ہیں مس نیٹلٹن کی ان بچوں سے محبت انہیںبار بار کوشش کرنے پر مجبور کرتی رہی۔ پانچ سال کا یہ طویل دورانیہ یقیناً اس نانی کیلئے پریشانی کی وجہ بنا رہا ہوگا اور اپنے اس خاندان سے ملاقات کیلئے نجانے انہیں کتنے دروازے کھٹکٹانے پڑے ہوں گے، درجنوں بار مایوسیوں کا شکار بننا پڑا ہوگا۔ اگر بات میںمقصدیت ہو اور بات کسی اہل طریقہ سے اگلوں تک پہنچ جائے اور وسائل بھی موجود ہوں اور بالآخر ہمت نہ ہارنے والا جذبہ ہو تو راہیں کھل جاتی ہیں، یقیناً اس 62سالہ باہمت خاتون کا آسٹریلین براڈ کاسٹنگ کمپنی کو اس تلاشی کو فلم کرنے کیلئے راضی کرنا بھی آسان کام نہیں تھا۔ دنیا بھر کے میڈیا میںمردوں کی نسبت خواتین کی تعداد زیادہ ہے جہاں معاملات خواتین اور بچوں کے مشترکہ طور پر ایک مشکل صورتحال سے جڑے نظر آئیں (جیسا کہ یہاں تھا) تو ایسے خطرناک حالات میں بھی فلم سازی ممکن ہوجاتی ہے۔ اس مہم کا اہم ترین پہلو کُردش فورسز سے معاملات طے کرنے کیلئے ہوئے ہوںگے کیونکہ ’’الہال‘‘ کیمپ کا ایک ترکش کُرد گروپ انتظام سنبھالے ہوا ہے۔ گفت و شنید کے مراحل طویل اور صبر آزما ہوئے ہوںگے کیونکہ اکثر اوقات ایسے گروہ مال پانی لئے بغیر کم ہی مدد پر آمادہ ہوتے ہیں یہ وہاں کی نیم فوجی زندگی کی حقیقت ہے اور یہ بھی درست ہے کہ کیمپ میںموجود لوگ کسی نہ کسی کی ذمہ داری ہیں، داد دینی پڑتی ہے اس خاتون کی ہمت کی جو ایک طویل تگ و دو کے بعد مقصد میںکامیاب ہوتی ہے یقیناً کئی مزید زینب اور ہدا کسی کے انتظار میںہیں کہ ان کا اپنا کوئی مہربان ان سے آن ملے 72,000 ریفیوجیز کی اتنے بڑے کیمپ میںموجودگی ایک بڑا انتظامی مسئلہ ہے ان میں مغربی ممالک سے گئے کئی جنگجو مرد اور خواتین کی ایک بڑی تعداد ہے کئی ممالک ان میں سے کسی کو بھی واپس لینے کیلئے تیار نہیں تو کیا ہو جس سے اس پیچیدہ مسئلہ کا حل نکل آئے؟ ان تمام کیمپوں میں تجربہ کار مرد اور خواتین جنگجو موجود ہیں۔ ایک بین الاقوامی پروگرام کے تحت ان لوگوں کو بین الاقوامی قوانین کے تحت گزارنے کیلئے مخصوص علاقوں میں الائونسز دیکر سیٹل کردیا جائے اور ایسی settlements کی دو دہائیوں تک پرویژن کرکے ان لوگوں کو واپس بین الاقوامی برادریوں کا حصہ بنادیا جائے۔ یہ ایک طویل مدتی پروگرام ہے۔ مگر کسی ایسے پروگرام کے بغیر مسئلہ حل ہوتا نظر نہیں آتا، اللہ ہمارا حامی و ناصر رہے۔