تعلیم کے حصول میں لڑکیوں کی حوصلہ افزائی کریں

April 28, 2019

پاکستانی معاشرے میں بڑھتے شعور کی وجہ سے ملک کے بیشتر حصوں میں لڑکیوں کا تعلیم حاصل کرنا اب معیوب نہیں رہا۔ پاکستان کے دیہی اور پسماندہ علاقوں میں سرکاری و نجی سطح پر لڑکیوں کی تعلیم پر خاص توجہ مرکوز کی جارہی ہے۔ معیاری تعلیم کا اشاریہ مرتب کیا جائے تو شہروں میں میٹرک، انٹر، بی اے، ایم اے اور ایم ایس سی میں عموماً پوزیشن ہولڈرز لڑکیاں ہی نظر آتی ہیں۔ اس روشن منظرنامے میں ہر گزرتے دن اُردو اور انگریزی میڈیم کی بڑھتی تقسیم اور معیاری تعلیم کیلئے مہنگی فیس اب بھی لڑکیوں میں تعلیم کے فروغ میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔

ایسے میں والدین کا کردار سوا ہوجاتا ہے کہ وہ مساعد و نامساعد حالات میں بھی بچیوں کو معیاری تعلیم دلوانے کے اقدامات اور ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ملک میںکچھ تعلیمی ادارے مفت تعلیم بھی دیتے ہیں جبکہ فلاحی ادارے اور مخیر حضرات بھی اس حوالے سے مدد کرتے ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستان کے چاروں صوبوں بلوچستان، خیبر پختونخوا، سندھ اور پنجاب میں لڑکیوں کی تعلیم کا تناسب بالترتیب 25فیصد، 36فیصد،50فیصد اور 56فیصد ہے۔ ہر صوبے کا اپنا نظام تعلیم اور بورڈ ہے۔ مفت تعلیم ٹاٹ کے پردوں اور کھلے آسمان تلے تو دستیاب ہے لیکن شاندار کیمپس میں تعلیم حاصل کرنا غریب گھرانے کی لڑکیوں کیلئے صرف ایک خواب ہے۔

والدین کو اس بات کا ادراک ہے کہ اخلاق اور تہذیب تعلیم و تربیت سے ہی آتی ہے۔ ایک پڑھی لکھی ماں بچوں کی بہتر تربیت کرتی ہے، تاہم مجموعی طور پر والدین کی رہنمائی و مدد کرنے والا کوئی نہیں۔ ایسا کوئی فورم نہیں جہاں تعلیم یافتہ و غیر تعلیم یافتہ والدین کی کونسلنگ کی جائے، اس حوالے سے حکومت اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی آنے والی نسلوں کی تعلیم وتربیت بہتر انداز میں ہو اور یہ تب ہی ممکن ہے جب تربیت کرنے وا لے ہاتھ باشعور اورتعلیم یافتہ ہوں گے۔ یہ تعلیم ہی ہے، جس کی بدولت کسی بھی معاشرہ کے لوگوں میں شعور بیدار کیا جاسکتاہے اور تعلیم کی کمی ہی بہت سی معاشرتی بیماریوں کو جنم دینے کا باعث بنتی ہے ۔ ماں کی گود چونکہ بچے کے لیے پہلی درسگاہ ثابت ہوتی ہے، اس لیے یہ درسگاہ جتنی باشعور اور تعلیم یا فتہ ہوگی عین ممکن ہے کہ بچوں کی تعلیم وتربیت اتنی ہی بہتر انداز میں ہوپائے۔ ہمارے معاشرے میںاب بھی کچھ والدین لڑکیوں کی تعلیم کو اس لئے ضروری نہیں سمجھتے کیونکہ وہ آج بھی اسی فرسودہ سوچ کے حصار میں گم ہیں کہ ’’بیٹی پرایا دھن ہے‘‘۔تاہم، لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میںماہرین کی رائے ہے کہ جو پیسہ لڑکیوں کی تعلیم پر خرچ کیا جارہا ہو، سمجھ لیں کہ وہ قوم کے لیے سرمایہ کاری کے طور پر خرچ ہو رہا ہے۔

اسلام بھی مرد اور عورت کی یکساں تعلیم کا درس دیتا ہے اور تعلیم کو دونوں پر لازم قرار دیتا ہے۔ تیزی سے ترقی کرتامعاشرہ بھی پڑھے لکھے مردوں کے علاوہ پڑھی لکھی خواتین کا متلاشی ہے کیونکہ کوئی بھی ملک خواتین کے کردار اور شمولیت کے بغیر ترقی و تعمیر کی منازل طے نہیں کرسکتا۔

لڑکیوں کی تعلیم کے علمبردار والدین مل جل کر ایک پلیٹ فارم تشکیل دیں۔ اس پلیٹ فارم پر شہری و دیہی علاقوںکے تعلیم یافتہ والدین کے ساتھ ساتھ غیرتعلیم یافتہ والدین (مثلاً مزدور، محنت کشوں اور کسانوں) کو بھی جگہ دینی ہو گی، جو مختلف وجوہات کی بناء پر خود تو نہ پڑھ سکے لیکن وہ اپنی آنکھوں میں بچوں کو تعلیم یافتہ بنانے کا خواب لئے جیتے ہیں۔

تعلیم انسان کو باشعور بناتی ہے، ایک پڑھی لکھی عورت کسی عام عورت کے مقابلے میںزیادہ اچھا فیصلہ کرنے کی طاقت رکھتی ہے کیونکہ تعلیم، عورت کو خوداعتمادی عطا کرتی اور خود پر بھروسہ کرنا سکھاتی ہے۔ ہمیں چاہیے کے مجموعی طور پر معاشرے میں ایسی فزا پیدا کی جائے، جس کے ذریعے تعلیم حاصل کرنے پر لڑکیوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ اپنے اِرد گرد کے لوگوں سے حوصلہ افزائی پاکر لڑکیوں میں تعلیم حاصل کرنے کا جذبہ پیدا ہوگا اور وہ معاشرے میں ایک کارآمد شخصیت بن کر اُبھریں گی۔