نیب قانون کے خاتمے کا موقع

May 01, 2019

سابق آمر پرویز مشرف نے ملک کو بدعنوانی سے پاک کرنے کے نام پہ صدارتی آرڈیننس کے ذریعے قومی احتساب بیورو قائم کر کے سیاستدانوں کی وفاداریاں تبدیل کرنے کی جو بنیاد رکھی، احتساب بیورو آج بھی اُس داغ سے اپنے دامن کو صاف نہیں کر سکا۔ آج بھی نیب پہ پولیٹکل انجینئرنگ اور سیاسی انتقام کے الزامات لگائے جاتے ہیں۔

اِس سے زیادہ دلچسپ مگر تلخ حقیقت بھی کوئی نہیں ہو سکتی کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) سمیت ملک کی سیاسی جماعتوں کے رہنما جب بھی کرپشن کے الزامات کے تحت نیب کے شکنجے میں آئے، تب یہ ادارہ اُنہیں ایک آنکھ نہ بھایا اور نیب لاء اُن کے لئے کالا قانون ہی ٹھہرا لیکن جیسے ہی نیب کا ریڈار اُن سے ہٹ کر مخالفین کی طرف مڑا تو یہی نیب اُنہیں بھلا لگنے لگا۔ ملک میں یہ آنکھ مچولی گزشتہ بیس سال سے جاری ہے، اِس بار تماشا دیکھنے کی باری اُس کھیل میں شامل ہونے والے نئے کھلاڑی کی ہے اور یہاں بھی حسنِ اتفاق کہ جسے کالا قانون کہا جاتا ہے اُس میں ترمیم کے لئے کلیدی کردار اُس وفاقی وزیرِ قانون وانصاف فروغ نسیم نے ادا کرنا ہے جو کل تک پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس میں بطور وکیل اُس کا دفاع کرتے رہے ہیں۔ اپنے اپنے دورِ حکومت میں نیب کی کارروائیوں پہ خاموش تماشائی کا کردار ادا کرنے والی مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کےرہنما اب برملا اعتراف کرتے ہیں کہ اِس قانون کو تبدیل نہ کر کے اُنہوں نے بہت بڑی غلطی کی۔ موجودہ حکومت کے رہنما اگرچہ نیب کو آزاد اور خود مختار ادارہ قرار دیتے ہیں لیکن وزیراعظم عمران خان کے خلاف ہیلی کاپٹر کے ناجائز استعمال کی تحقیقات ہوں یا پرویز خٹک کے خلاف مالم جبہ کیس کی انکوائری یا تحریک انصاف کے دیگر رہنمائوں کے خلاف مقدمات، یہی حکومتی رہنما نیب قانون میں ترامیم کی خواہش کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان نیب قانون کو تبدیل کرنے اور نیب میں اصلاحات متعارف کرانے کے لئے گزشتہ چار ماہ سے بیک ڈور رابطے جاری ہیں۔ اِس ضمن میں وفاقی وزیرِ قانون وانصاف بیرسٹر فروغ نسیم قومی اسمبلی میں بتا چکے ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان نیب قانون میں تبدیلی کے لئے اتفاق تو پایا جاتا ہے تاہم ساتھ ہی اُنہوں نے یہ تشویش بھی ظاہر کی کہ چار مذاکراتی دور کے باوجود نیب قانون میں ترامیم پہ پیش رفت نہیں ہو سکی۔ ڈیڈلاک کی وجہ یہ بتائی گئی کہ حکومت فی الوقت نیب کے قانون میں چیدہ چیدہ ترامیم چاہتی ہے جبکہ اپوزیشن نیب قانون میں وسیع پیمانے پہ تبدیلیوں کی خواہاں ہے۔ وفاقی وزیرِ قانون کے مطابق حکومت نے نیب قانون میں ترامیم کا بارہ نکاتی مسودہ تیار کیا ہے لیکن اپوزیشن کے مجوزہ مسودے میں لگ بھگ اُنتالیس ترامیم شامل ہیں۔ حکومتی مسودے میں تجویز کیا گیا ہے کہ احتساب عدالت سے وارنٹ جاری ہونے کے بعد ہی کسی ملزم کو گرفتار کیا جائے جبکہ ضمانت کا اختیار بھی ٹرائل کورٹ کو دے دیا جائے، ریمانڈ کی مدت بھی ضابطہ فوجداری کے تحت ہو، ملزم کو خود بے گناہی ثابت کرنے کی شق میں ترمیم کی جائے جبکہ نیب کا نیا نام قومی احتساب کمیشن ہو۔ چیئرمین نیب کی تقرری کی اہلیت اور طریقہ کار جبکہ احتساب کے نئے قانون کے اطلاق سمیت کرپشن اور کرپٹ پریکٹسز کی تشریح بھی از سرِ نو کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ دوسری طرف اپوزیشن کے مجوزہ مسودے میں چیئرمین کے پاس گرفتاری کا اختیار ختم کرنے، انکوائری یا انوسٹی گیشن کے مرحلے پہ کسی کو گرفتار نہ کرنے، گرفتاری کو کورٹ آرڈر سے مشروط کرنے، پچاس کروڑ سے زیادہ مالیت کے مقدمات نیب کو ریفر کرنے، میڈیا کو کوئی اطلاع جاری نہ کرنے، عدالت کی اجازت سے پلی بارگین کرنے، ڈی جی نیب سے ریفرنس دائر کرنے کا اختیار واپس لینے، چیئرمین نیب، ڈپٹی چیئرمین اور پراسیکیوٹر جنرل کی تقرری پارلیمانی کمیٹی کی کھلی سماعت میں کرنے، اُن کے جج نہ ہونے، پراسیکیوشن کو کیس ثابت کرنے، ملزم کو سات روز میں جیل بھیجنے، تحقیقات اور ٹرائل کا دورانیہ مقرر کرنے جیسی ترامیم شامل ہیں۔ نیب قانون میں ترامیم کے لئے مذاکرات کرنے والوں کو ادراک ہونا چاہئے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں احتساب کے قانون میں تبدیلی کے لیے قائمہ کمیٹی قانون و انصاف میں تقریباً ساڑھے تین سال سال تک اتفاق رائے کی کوششیں کی جاتی رہیں لیکن کامیابی نہ مل سکی۔ اِسی طرح مسلم لیگ(ن) کے دورِ حکومت میں ابتدائی ساڑھے تین سال تو احتساب کے قانون میں ترامیم پہ آنکھیں بند رکھی گئیں اور پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کے خلاف کارروائیوں پہ محض تماشا دیکھنے پہ اکتفا کیا گیا۔ جب احتساب کی تپش (ن)لیگ کے آنگن تک پہنچی تو اِس انتہائی حساس قانون کے حوالے سے بیس رکنی پارلیمانی کمیٹی قائم کی گئی، جس میں سینیٹ سے بھی ارکان کو شامل کیا گیا۔ اِس کمیٹی نے گیارہ ماہ انتہائی عرق ریزی سے کام کیا اور جب قومی احتساب کمیشن کے قیام کے نئے قانون کی منظوری کا عمل شروع ہونے لگا تو تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے مخالفت کرتے ہوئے موجودہ قانون کو ہی برقرار رکھنے کا مطالبہ کر دیا۔ ایم کیو ایم پہلے ہی نئے قانون کی مخالفت کر چکی تھی جبکہ بلا امتیاز احتساب کے معاملے پہ پیپلز پارٹی کے پائوں کھسکانے پہ فرحت اللہ بابر نے اپنی ہی قیادت کے فیصلے کے خلاف کمیٹی سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ نیب کے قانون میں تبدیلی کے لئے ماضی کی اِن کاوشوں کی یاد دہانی کرانے کا مقصد یہ ہے جو اتفاق رائے اکثریت کی حامل حکومتوں کے دور میں قائمہ کمیٹی اور پارلیمانی کمیٹی کے مہینوں اور سالوں اجلاس منعقد کرنے کے باوجود حاصل نہیں کیا جا سکا، وہ چھ ووٹوں کی اکثریت کی حامل حکومت کے دور میں محض بیک ڈور رابطوں سے کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ احتساب قانون میں ترامیم کے لئے تمام سیاسی جماعتوں پہ مشتمل پارلیمانی کمیٹی قائم کی جائے جو اتفاق رائے سے آمریت کی اِس نشانی کو ختم کرنے کے لئے متفقہ بل تیار کرے۔ احتساب کے قانون میں تبدیلی کا موقع اب پاکستان تحریک انصاف کے پاس ہے جسے یہ ہرگز نہیں بھولنا چاہئے کہ اِس کالے قانون کی زد میں آنے کی اگلی باری اب اُسی کی ہے۔