اے اہل حشر ہے کوئی نقادِ سوزِ دل

January 20, 2013

جوں جوں انتخابات کی گرمی اور حصول اقتدار کی تپش بڑھے گی، سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کے درمیان اختلافات کی دیواریں بلند ہوتی جائیں گی۔ اسی طرح اور اسی رفتارسے ان کے کارکن، حمایتی اور قلمی کارندے بھی خانوں میں تقسیم ہوتے چلے جائیں گے۔ پھرایک دوسرے پر تنقید و تنقیص کے تیر چلائے جائیں گے، نفرت بھرے نشتر لگائے جائیں گے اورکردار کشی کی ”مہمات“ چلائی جائیں گی۔ مشاہدہ بتاتا ہے کہ اس مہم جوئی کے دوران معاشرے میں نفرت، کدورت اور محاذ آرائی بڑھتی ہے۔ دلوں اور دماغوں کے درمیان فاصلوں میں اضافہ ہوتا ہے اور نتیجے کے طور پر محبت، بھائی چارہ اور معاشرتی ہم آہنگی گھٹتی ہے۔ شاہ سے زیاد ہ شاہ کے وفادار جلتی پرتیل ڈالتے ہیں اور پھر اختلاافات کی آگ اس طرح بھڑکتی ہے کہ اس میں دیرینہ دوستانہ تعلقات اوربرسوں پر محیط محبت کے رشتے جل کر راکھ ہو جاتے ہیں۔ اس کی ایک بنیادی وجہ جمہوریت کی تربیت کا فقدان اور ہماری ذات یعنی لوگوں کے مفادات ہوتے ہیں جن پرلوگ اصولوں کا ملمع چڑھا لیتے ہیں اور پھر ان نام نہاد اصولوں کے دفاع یا ترویج کے لئے ہر حربہ استعمال کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ اگر آپ غور سے خانوں میں بٹی بلند آہنگ آوازوں کا ترنم سنیں اور ٹھنڈے دل سے اس کا تجزیہ کریں تو محسوس ہوگا کہ اس اختلاف، مخالفت اور اظہار ِ نفرت کا سبب کوئی بڑا اصول یا نظریاتی کمٹ منٹ نہیں بلکہ ذاتی پسند اور ذاتی مفادات ہیں جو لوگوں نے اپنے اپنے ہیروز اور اپنے اپنے پسندیدہ رہنماؤں سے وابستہ کر رکھے ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ جماعتیں یا رہنما اقتدار میں آئیں گے تو ان کے مفادات کے خواب شرمندہ ٴ تعبیر ہوں گے ۔ چنانچہ ان کی کامیابی کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگانا، ان کے مخالف کا گلا کاٹنا اور ہر طرح سے کردارکشی کرکے لوگوں کی نظروں سے گرانا ان کی ضرورت بن جاتی ہے۔ جب ضرورتیں انسان پر غالب آ کر اس کی شخصیت پر حکومت کرنے لگیں تو انسان نفرت و محبت میں تقریباً اندھا ہوجاتا ہے۔ خدا کی پناہ ایسی نفرت اور محبت سے جو انسان کو اندھا کردے اوراس کے دل و دماغ پر مہریں لگا دے۔ محبت و نفرت ، نیکی اور بدی کی بنیاد پر ہو توجائز ورنہ ہرصورت خطرناک ثابت ہوتی ہے۔ ہمارے صوفیا کی لغت میں تو نفرت کا لفظ موجود ہی نہیں ہوتا تھا اور یہی وجہ تھی کہ وہ ہر ایک کو گلے سے لگاتے اور محبت سے دین کا پیغام پھیلاتے تھے۔ ایک بزرگ کہاکرتے تھے کہ حضور نبی کریم کو گناہگار سے نہیں بلکہ گناہ سے نفرت ہے۔ یوں وہ گناہگار اور گناہ کے درمیان تمیز پیداکرکے ایک لکیر کھینچ دیتے۔ مطلب یہ کہ توبہ کے دروازے ہمہ وقت کھلے ہیں، کوئی گناہگار بھی سچے دل سے توبہ کرکے گناہ کی زندگی سے تائب ہوسکتا ہے اور اپنے رب کی طرف رجوع کرکے اس کی محبت سے لطف اندوز ہوسکتا ہے۔ اس لئے گناہگار سے نفرت نہیں بلکہ صرف گناہ سے نفرت کی جاتی ہے۔
کہنے کا مقصد یہ تھا کہ جوں جوں انتخابات کی حدت اورٹمپریچر میں اضافہ ہو رہا ہے ، پارٹیوں، لیڈروں اور ان کے حمایتیوں، خوشامدیوں، زندہ بادیوں اور قصیدہ نویسوں کے درمیان لکیریں واضح ہو رہی ہیں اور امکان یہی ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ لکیریں مزید واضح ہوتی جائیں گی اور آپس میں فاصلے بڑھتے جائیں گے جس سے ماحول کی تلخی بھی پھیلے گی اور سچ کا قتل عام بھی ہوگا۔ بڑاآسان ہے یہ کہہ دینا کہ صاحب ہم نے تو فقط آئینہ دکھایا اس میں ہماراکیا قصور؟ جبکہ سچ یہ ہے کہ آئینہ دکھانے میں بھی ایک تواز ن اور سلیقہ درکار ہوتا ہے اور اگر توازن اور سلیقے کا دامن چھوڑ دیاجائے تو الفاظ نفرت کے الاؤ بن جاتے ہیں۔ یوں وہ الفاظ عام قارئین کے لئے تاثیر کھو بیٹھتے ہیں لیکن ظاہر ہے کہ اس الاؤ سے جن کے مقاصد پورے ہوتے ہیں وہ نہ صرف خوشی سے تالیاں بجاتے اور واہ واہ کے ڈونگرے برساتے ہیں بلکہ وفاداری کی مہر بھی لگا دیتے ہیں اوریہی وہ وفاداری کی مہر ہے جسے لگوانے کے لئے ساری صلاحیتیں وقف کردی جاتی ہیں اورپھر وقت آنے پر اس کا صلہ مانگا یا چاہا جاتا ہے۔ نمبر ٹانکنے کا یہ کھیل نہایت دلچسپ ہوتا ہے اور زیادہ سے زیادہ نمبر حاصل کرنے کے لئے مقابلہ خاصا چشم کشا ہوتاہے۔ گزشتہ دنوں ڈاکٹر طاہر القادری کے لانگ مارچ اور دھرنے نے اس کھیل کی ایک ہلکی سی جھلک دکھائی لیکن میرے نزدیک یہ ایک ٹریلر تھا، فلم چلنے والی ہے اور انتخابات کے شیڈول کااعلان ہوتے ہی فلم چلنا شروع ہو جائے گی۔ پھر دیکھئے گا کہ قابل لوگ کس طرح اپنے جوہر دکھاتے اور نفرت بیچ کر داد تحسین وصول کرتے ہیں۔ میں کم علم انسان ہوں نہ میرا کوئی تعلق منہاج القرآن سے ہے اور نہ ڈاکٹرطاہر القادری سے لیکن سیاسیات کا طالبعلم ہونے کے ناطے فقط اتنا سمجھتا ہوں کہ کچھ ناکامیوں کے باوجود اس مثالی لانگ مارچ اور مثالی دھرنے نے پاکستان کی سیاست کے جسم میں تبدیلی کاٹیکہ (انجکشن) لگا دیا ہے جو بہرحال رنگ لائے گا اور انتخابات کے نتائج پراثرانداز ہوگا۔ یہ میرا اندازہ ہے جو غلط بھی ثابت ہوسکتا ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ ہزاروں (لاکھو ں نہیں) شرکا کا لاہور سے اسلام آباد تک سفر، دھرنا، ایثار، خلوص اور دعائیں ضائع نہیں جاسکتیں۔ انہوں نے پوری قوم کو ایک پیغام دے دیا ہے جسے جاگتی آنکھیں دیکھ رہی ہیں اور بیدار ذہن سمجھ رہے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ان شرکا کایہ پیغام ملک بھرمیں پھیل جائے گا لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ کوئی انقلاب آجائے گا۔ مطلب یہ کہ ان کا پیغام انتخابات پر اثرانداز ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ روایتی سیاستدان، پرانی سیاسی جماعتیں اور تبدیلی کی مخالف قوتیں خوفزدہ اور پریشان دکھائی دے رہی ہیں۔ مجھے نہیں معلوم ڈاکٹر صاحب کا ایجنڈا کیا تھا، وہ انقلاب کس طرح لانا چاہتے تھے، ان کا ہدف کیا تھا یا لانگ مارچ کے پیچھے کسی کا ہاتھ تھا یا نہیں لیکن ان سے قطع نظر مجھے شرکا کے ایثار اور استقامت، نظم و ضبط اور جذبے نے بہرحال متاثر کیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ تبدیلی کے یہی محرکات ہوتے ہیں اور یہی پیش خیمہ… کمال ہے بھائی کمال کہ ہماری بڑی بڑی سیاسی جماعتیں اوربڑے بڑے لیڈران جلسے کرتے ہیں تو ان کے کارکن جلسے کے خاتمے کا انتظار کئے بغیر کھانے کی دیگوں پرحملے کردیتے ہیں۔ بوٹیوں کی تقسیم پر چھینا جھپٹی کے مناظر راز فاش کرتے ہیں کہ لیڈران بھی اسی طرح مال و زر کی چھینا جھپٹی میں مصروف ہیں جیسی روح ویسے فرشتے۔ لیکن حیرت ہے اسلام آباد کے دھرنے پرکہ لوگ پانچ دن تک بیٹھے صبر و قناعت کا عملی نمونہ بنے رہے، نہ شکایت نہ گلہ، نہ کوئی گملا ٹوٹا نہ کسی دکان کا شیشہ… جس پرامن انداز سے آئے تھے اُسی پرامن انداز سے واپس چلے گئے ۔ مجھے علم نہیں کہ انہیں مایوسی ہوئی یا شعلہ بیانی سے پیدا کردہ توقعات چکنا چور ہوئیں، انہوں نے کیا کھویا اور کیا پایا لیکن دوستو! ان کا ایثار، استقامت اور ڈسپلن ایک ایسا نقش ثبت کر گیا جو تاریخ میں مثال بن کر زندہ رہے گا۔
میں نے ان چند ایام کے ٹریلر کے دوران نفرت کی بڑھتی اورپھیلتی ہوئی لکیریں دیکھیں توآنے والے چند ماہ کا نقشہ ذہن میں ابھر نے لگا۔ جی چاہا کہ میں دوستوں سے اپنے مفاد میں ایک چھوٹی سی جسارت کروں اور عرض کروں کہ دوستو! کسی پر تنقید اس طرح نہ کرو کہ وہ ذاتی مفاد لگے یا کردارکشی کا تاثر پیدا کرے اور نہ کسی کی تعریف اس طرح کرو کہ وہ خوشامد اور قصیدہ لگے۔ توازن کا دامن بہرحال تھامے رکھو کہ توازن مسلمان کی زندگی کا محور اور بنیاد ہے… اور ہاں خدارا مت سمجھو کہ میری فریاد کارخ کچھ مخصوص افراد کی جانب ہے۔ میری یہ فریاد سارے سیاسی کارکنوں، لیڈروں، اینکروں، صحافیوں، تجزیہ نگاروں اور کالم نگاروں کی خدمت میں ہے۔ ہمارا اجتماعی فرض ہے کہ انتخابات کے ماحول میں تلخیوں اور نفرتوں کے الاؤ نہ جلائیں اور اس مقام سے امن اور چین سے گزر جائیں۔ صرف اسی سپرٹ اور جذبے سے جمہوری عمل کو مضبوط بنایا جاسکتا ہے کیونکہ ”برداشت“ جمہوریت کی روح ہے اور روح کے بغیر جسم مردہ ہوتا ہے۔